مجھے میرے شاگردوں سے بچاؤ

0
212
- Advertisement -

میرے سامنے خط کا کھلا لفافہ پڑا ہوا تھا اور خط میرے ہاتھوں میں تھا۔ یہ خط مجھے گاؤں سے میرے والد محترم نے بھیجا تھا۔ میں نے خط کی تحریر کو تین چار بار پڑھا اور پھر اسے لفافے میں ڈال دیا جس میں اس نے گاؤ ں سے سفر طے کر کے شہر آیا تھا۔ پھر اسے گوند سے چپکا کر میز کے اس دراز میں ڈال دیا جس میں پہلے ہی ایک درجن سے زائد خطوط موجود تھے۔ دراز کو نقفل کر کے میں نے زور سے میز کو مکا مارا اور پھر بڑبڑاتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر کے ایک سرد آہ لی اور پھر سوچوں میں گم ہوگیا۔

یقیناََ      آپ بھی دوسرے لوگوں کی طرح مجھے یہی مشورہ دیں ے کہ مجھے اپنے گھر والوں کی بات مان لینی چاہیے اور بایانہ روش ترک کر دینی چاہیے۔ آ پ کا خیال ہوگا کہ میں بھی ان ہزاروں طلباء میں سے ہوں گا جو اپنے گھر کے دیہاتی ماحول سے بھاگ کر شہر کی رونقوں میں کھو گیا ہوں گا ۔ مجھے میرے گھر والے واپس آنے پر اصرار کر رہے ہیں اور مجھے شہر کی روشنیاں بھا گئی ہیں۔ یا پھر یہ کہ گھر والوں سے ناراض ہو کر میں نے شہر کو جائے پناہ سمجھ لیا ہے۔ اگر آپ یہ نہیں سوچ رہے ہوں گے جو مجھے پہلے پہل اس حالت میں دیکھ کر میرے دوست صفدر نے سوچا تھا۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے والدِ محترم میری شادی کسی بوڑھی جاگیردارنی سے کروانا چاہ رہے ہوں گے  اور مجھے شہرکی کوئی چنچل اور ماڈرن لڑکی سے عشق وغیرہ ہو گیا ہے۔ صفدر نے تو مجھے اپنے تییں اس بات کے لیے رضا مند کرنے کے واسطےاپنی کوششیں بھی شروع کر دی تھیں۔ اس ضمن میں اس نے کئی علماء  اور مساجد کے پیش اماموں سے دو شادیوں کے حق میں کئی فتوے بھی لے آیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے اس جاگیردارنی سے بھی شادی کر لینی چاہیے اور محبوبہ کو بھی میں اپنے ہاتھ سے جانے نہ دوں۔ آپ کے یہ سارے خدشات بالکل بے جا اور بے بنیاد ہیں۔   نہ ہی میں شہر کی رنگینیوں  میں کھویا ہوں اور نہ ہی اپنے دیہات کی خالص آب و ہوا، کھیتوں کے دلفریب نظارے اور اپنے رشتہ داروں کے بے لوث تعلق کو بھول پایا ہوں ۔ جہاں تک عشق کی بات ہے تو آپ کے باقئی اندازوں کی طرح یہ بھی درست نہیں اور جب صفدر کو بھی میرے اس حالت کو سدھارنے کی کوشش نہیں کی اور جب صفدر کو بھی میرے اصل مسئلے کا علم ہوا تو پھر اس دن کے بعد اس نے کبھی میری سی حالت کو سدھارنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ یہ مسئلہ تھا ہی کچھ ایسا۔ بات کچھ یوں ہے کہ میرے والد محترم کا پیشہ معلمی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آبائی پیشے کو اپناؤں یعنی پڑھنے پڑھانے کے عمل کو۔۔۔!

میرے کئی دوست احباب ایسے ہیں جو اپنے سے ایک کلاس جونئیر لڑکوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں ۔ ٹیوشن بہت فائدہ مند کام ہے ۔ اس کے دو فوائد ہیں۔ ایک تو انسان دوسرے شخص کا باپ (یعنی روحانی باپ) بن جاتا ہے اور دوسرا کچھ پیسے بھی ہاتھ آجاتے ہیں۔ آج کل کے دور میں اس سے زیادہ منافع بخش کاروبار کوئی نہیں۔ یہ وہ واحد کاروبار ہے جس میں رات دن چوگنی ترقی ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود میں استاد بننےپر راضی کیوں نہیں۔ یقیناََ آپ بھی وہ سجہ جاننے کے لیے بے تاب ہوں گے جس کی وجہ سے میں اتنے سنہرے موقعے کو ہاتھوں سے یوں جانے دے رہا ہوں ۔ جس طرح لو گ ہاتھوں سے میل کو جانے دیتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ صرف اتنی ہے کہ میں بے شمار اساتذہ کو اپنے شاگردوں کے سامنے (زانوئے تلمذ طے کیے) شرمسار ہوتے دیکھا ہے۔  نئی نسل کے شریر بچے ان کے پیچ و خم کس دیتے ہیں اور خدا کی پناہ۔۔۔!!!  میں نے اپنی آنکھوں سے ایک استاد کو ناک سے زمین پر لکیریں بھی کھینچتے دیکھا ہے۔ عموماََ یہ سمجھا جاتا ہے کہ دنیا کی سب سے مظلوم مخلوق  شوہر ہوتا ہے لیکن اگر غیر جانبداری سے ملاحظہ کیا جائے تو اکیسویں صدی میں شوہروں سے بھی مظلوم آج کا استاد ہے جو کسی زمانے میں روحانی باپ بھی ماناجاتا تھا۔ اس پر مستزاد مار نہیں پیا ر کا نعرہ جس نے استاد کے رہے سہے رعب و دبدبے کو بھی شاگردوں کے قلب و ذہن سے نکال دیا۔ میرے کچھ دوست ان دنوں مظلوم اساتذہ کی ایک انجمن بنانے کے چکروں میں ہیں۔ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ دوسروں کو ٹھوکر لگتے دیکھ کر سبق سیکھوں اور خود کو مجروح ہونے سے بچاؤں۔ شاید اسی وجہ سے آج تک میرا سر، گردن اور دل سلامت ہیں۔

میں پہلے آپ کو سامنے اپنے چند احباب کے ساتھ ان کے شاگردوں کے رکھےگئے رویوں کو بیان کروں گا پھر آپ سے مشورہ طلب کروں گا کہ مجھے استاد بننا چاہیے یا نہیں۔ میرے ایک دوست ہیں جن کا اسم گرامی اشرف خان ہے۔ ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔نہایت سادہ  طبیعت کے مالک ہیں۔ اپنی عزت بچانے کی خاطر بچون پر رعب جمانے کی بڑی کوشش کرتے ہیں لیکن آکر کہیں نہ کہیں ان کا ہاسا نکل جاتا ہے۔ بچوں کو سمجھانے کے لیے نہایت دلچسپ اور آسان طریقے استعمال کرتے ہیں لیکن اکثر اوقات یہ طریقے ان کے گلے کا طوق بن جاتے ہیں ۔ ایک دفعہ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے ان کے شب و روز کا احوال  دریافت کیا۔ پوچھنے کی ہی دیر تھی۔ آنکھوں میں آنسوؤں کا دریائے نیل لیے کچھ یوں گویا ہوئے بھئی اس سے تو بہتر تھا کہ میں بھیک مانگتا۔ میں نے وجہ پوچھی تو رونی صورت بنا کر بولے یار کیا بتاؤں۔ یہ غالباََ پچھلےماہ کی بات ہیں ۔ میں کلاس مین گیا اور جاتے ہی میں نے پڑھانے کے لیے کتاب کھولی۔ ابھی ایک پیرا گراف بھی پورا نہیں پڑھایا تھا کہ اچانک کہین سے ایک کنکر آکت کتاب پر گر پڑا ۔ میں نے سکول کی چھت کی طرف دیکھا جہاں سے مٹی کے آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ میں نے کتاب پر دوبارہ نظر کی تو اچانک ایک اور کنکر کہیں سے م یرے سینے پر آلگا۔ مین نے اس حرکت کا منبع دریافت کرنے کی کوشش کی اور ایک بچے کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ میں نے اس کی تھوڑی سرزنش کی اور اسے کلاس کے سامنے کھڑا رہنے کا حکم دیا اور دوبارہ پڑھانے لگا۔ ابھی میں نے ایک جملہ ہی پڑھا کہ ایک بار پھر اسی حرکت کا اعادہ ہوا۔ میں نے نئے کھلاڑی کو بھی پکر لیا اور سرزنش کے بعد کلاس کے سامنے بلیک بورڈ کے ساتھ دوسرے لڑکے کے ہمرا کھڑا رہنے کا حکم دیا۔ وہ بھی وہاں کھڑا ہوگیا۔ میں سکون کی سانس لیتے ہوئےدوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہوا۔ اتنی دیر میں ایک اور کھلاڑی میدان میں اتر چکا تھا۔ رفتہ رفتہ بلیک بورڈ کے ساتھ کھڑے لڑکوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور پھر ایک وقت آیا کہ کلاس کے بنچ خالی تھے اور بلیک بورڈ کے سامنے والی دیوار بھری ہوئی۔۔۔ اب ایسے میں میں انہیں کیا پڑھاتا۔ لڑکوں نے پتا نہیں کہا ں سے یہ حرکت سیکھی اب میں روزانہ ان کی اس مشقِ ستم کا نشانہ بنتا ہوں۔

ارسلان شاہ تو شاگرد کے نام سے ہی بھاگتے ہیں۔ موصوف ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے لیے تقریباََ تین سال بعد کالج میں ملازمت ملی۔ تین چار سال تک انہوں نے بڑی مشکلوں سے کچھ جمع پونجی اکٹھی کی تاکہ وہ رشتہ  ٔ ازدواج میں منتقل ہو سکیں۔ ان دنوں جب ان کی شادی کے  دن مقرر ہونے والے تھے کہ ان کا ایک ، لاڈلے طالب علم ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بہن ہسپتال میں ایڈمٹ ہے اسے کینسر ہے ۔ ڈاکٹر کہہ رہا ہے کہ اس کے علاج کے لیے چار پانچ لاکھ چاہییں۔ اب میں ادھار مانگ رہاہوں اگر کچھ ہوسکے آپ میری مدد فرما دیں۔ انہوں نے اپنی جمع پونجی بنک سے نکالی اور اس کے حوالے کر دی۔ چند بعد ان کو اطلاع  ملی کہ جس لڑکی سے ان کی شادی ہونے والی تھی، ان کے اس جواب کے بعد کہ اگلے سال شادی کروں گا، اس کی شادی ایک اور لڑکے سےہو رہی ہے۔ جب انہوں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہی ان کا لاڈلا طالب علم ان کی منگیتر سے شادی کر رہا ہے۔

- Advertisement -

لوجی ! میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ دروازے پر  دستک ہوئی۔

دروازہ کھولا توباہر میرے والد محترم بنفسِ نفیس کھڑے نظر آئے۔

 

مصنف:سید ممتاز علی بخاری

 

مزید افسانے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

 

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here