میں بھی شریک مرگ ہوں مر میرے سامنے
میری صدا کے پھول بکھر میرے سامنے
آخر وہ آرزو میرے سر پر سوار تھی
لائے تھے جس کو خاک بہ سر میرے سامنے
کہتے نہیں ہیں اس کا سخن میرے آس پاس
دیتے نہیں ہیں اس کی خبر میرے سامنے
آگے بڑھوں تو زرد گھٹا میرے روبرو
پیچھے مڑوں تو گرد سفر میرے سامنے
میں خود کسی کے خون کی آندھی ہوں ان دنوں
اڑتی ہوئی ہوا سے نہ ڈر میرے سامنے
آنکھوں میں راکھ ڈال کے نکلا ہوں سیر کو
شاخوں پہ ناچتے ہیں شرر میرے سامنے
طاری ہے اک سکوت ظفرؔ خاک و خشت پر
جاری ہے بادلوں کا سفر میرے سامنے
شاعر:ظفر اقبال