نسیم صبح پریشاں ہے دیکھیے کیا ہو
خزاں کی زد میں گلستاں ہے دیکھیے کیا ہو
گلاب زرد ہوا لالہ داغدار ہوا
شگوفہ خوف سے لرزاں ہے دیکھیے کیا ہو
ارادہ وحشت و غارت گری ہے ظالم کا
نشانہ شہر نگاراں ہے دیکھیے کیا ہو
وہ ابر جس کے برسنے سے پھول کھلتے تھے
وہ آج شعلہ بداماں ہے دیکھیے کیا ہو
لگی ہیں یاروں کی آنکھیں نئے حوادث پر
ہر ایک آئنہ حیراں ہے دیکھیے کیا ہو
سبھی رفیق و شفیق آج چھوٹے جاتے ہیں
بدن سے روح گریزاں ہے دیکھیے کیا ہو
غم حیات سے ممکن نہیں مفر لیکن
نجات ملنے کا امکاں ہے دیکھیے کیا ہو
مأخذ : ٹک ٹک دیدم
شاعر:ظفر نسیمی