تابش چشم تر میں رہتے ہیں
عکس دیوار و در میں رہتے ہیں
دفن ہو کر بھی جان سے پیارے
دل کے ویراں نگر میں رہتے ہیں
منزلوں سے نکل کے آگے ہم
یاد کی رہ گزر میں رہتے ہیں
کارواں کب ہمارے ساتھ رہا
ہم تو تنہا سفر میں رہتے ہیں
ان سے بار دگر نہیں نسبت
وہ جو بار دگر میں رہتے ہیں
کیوں مسیحا کا انتظار کریں
ہم دعا کے اثر میں رہتے ہیں
ٹوٹے تاروں کی روشنی کی طرح
کتنے چہرے نظر میں رہتے ہیں
چہرگی کے تمام تر چہرے
دست آئینہ گر میں رہتے ہیں
سب کمال و زوال کے پہلو
اپنی چشم ہنر میں رہتے ہیں
پوچھ کر طائروں سے اکثر ہم
اک گھنیرے شجر میں رہتے ہیں
عشق کے راز خوشبوؤں کے پیام
سب نسیم سحر میں رہتے ہیں
ظلمتوں کو اجالنے والے
نور فتح و ظفرؔ میں رہتے ہیں
مأخذ : شعر و حکمت
شاعر:ظفر مرادآبادی