بے قناعت قافلے حرص و ہوا اوڑھے ہوئے
منزلیں بھی کیوں نہ ہوں پھر فاصلہ اوڑھے ہوئے
اس قدر خلقت مگر ہے موت کو فرصت بہت
ہر بشر ہے آج خود اپنی قضا اوڑھے ہوئے
ان کے باطن میں ملا شیطان ہی مسند نشیں
جو بظاہر تھے بہت نام خدا اوڑھے ہوئے
کیا کرے کوئی کسی سے پرسش احوال بھی
آج سب ہیں اپنی اپنی کربلا اوڑھے ہوئے
کیا خبر کس موڑ پر بکھرے متاع احتیاط
پتھروں کے شہر میں ہوں آئینہ اوڑھے ہوئے
سب دلاسے اس کے جھوٹے اس کے سب وعدے فریب
کب تک آخر ہم رہیں صبر و رضا اوڑھے ہوئے
کیوں تذبذب میں نہ ہوں اس دور کے اہل نظر
گمرہی ہے آگہی کا فلسفہ اوڑھے ہوئے
انگلیاں مجروح ہو جائیں گی رہنا دور دور
خار بھی ہیں ان دنوں گل کی ردا اوڑھے ہوئے
ڈھال اس کی بن گئی ہے سب بلاؤں کے خلاف
گھر سے جو نکلا بزرگوں کی دعا اوڑھے ہوئے
بخششوں سے جس کی خاص و عام سب تھے فیض یاب
ہم بھی تھے اس بزم میں لیکن انا اوڑھے ہوئے
فصل گل آئی تو ویرانے بھی مہکے ہر طرف
آج خود خوشبو کو تھی باد صبا اوڑھے ہوئے
اک زمیں ہی تنگ کیا تھی اس سے جب بچھڑے ظفرؔ
آسماں بھی تھا غضب پرور گھٹا اوڑھے ہوئے
شاعر:ظفر مرادآبادی