چڑھا ہوا ہے جو سورج وہ ڈھل بھی سکتا ہے
ہوائے وقت کا رخ تو بدل بھی سکتا ہے
خموش لب ہے جو دریا تو خیر ہے سب کی
بگڑ گیا تو وہ بستی نگل بھی سکتا ہے
چلو اے تشنہ لبو ہم اٹھائیں دست دعا
کہ آسمان دعا سے پگھل بھی سکتا ہے
مناؤ جشن مکمل بہار آنے پر
ابھی نیا سا ہے موسم بدل بھی سکتا ہے
وہ پھول جیسا بدن چاندنی سے ہے ڈرتا
کہ چاندنی میں بدن اس کا جل بھی سکتا ہے
تمہیں تو شوق ہے پھولوں کے ساتھ رہنے کا
ہمارا عزم جو کانٹوں پہ چل بھی سکتا ہے
ہے آسماں کی بلندی میں گھر ظفرؔ جس کا
زمیں کی حد سے وہ باہر نکل بھی سکتا ہے
مأخذ : کتاب : خموش لب (Pg. 76) Author : ظفر محمود مطبع : عرشیہ پبلی کیشنز دہلی۔95 (2019)
شاعر:ظفر محمود ظفر