خوش خرامی کو تری ایک چمن زار تو ہو
گل سے بلبل کو جہاں باہمی تکرار تو ہو
رنگ کے ساتھ لہو بھرنے کو تیار تو ہو
تیری تصویر بنے کیسے کہ فن کار تو ہو
جنگ اور عشق میں ہر بات ہے جائز لیکن
جیت اس کی ہے جو آمادۂ پیکار تو ہو
وہ محبت ہے مجھے باعث عزت جس میں
کبھی انکار ہو لیکن کبھی اقرار تو ہو
آسماں وقت کے رخسار پہ ہو اشک فشاں
تاج کے جیسا کوئی دوسرا شہکار تو ہو
چاند آدھا ہے مگر رات سے یہ کہتا ہے
روشنی کے لئے مجھ سا کوئی تیار تو ہو
اس کی تشریح صدا ہوگی بہر طور مگر
حرف کے پاؤں کی زنجیر میں جھنکار تو ہو
اپنے اشعار سناؤں گا اسے میں لیکن
شرط اتنی ہے کہ غالبؔ کا طرف دار تو ہو
ہم کہ مہتاب سے بھی آنکھ چرا لیں گے ظفرؔ
لیکن اک بار ترا وعدۂ دیدار تو ہو
مأخذ : آتش رنگ
شاعر:ظفر مہدی