انداز زمانے کا ویسا ہی رہا پھر بھی
سو بار سنایا اور سو بار کہا صاحب
دنیا سے شکایت کیا اور تم سے گلہ کیسا
الزام ہی ملنا تھا انعام وفا صاحب
افتاد پہ انساں کی خاموش ہوئے انساں
ایسے میں تو یاد آیا بس اپنا خدا صاحب
حالات کی دھوپ اپنا یوں رنگ اڑا دے گی
مٹ جاتا ہے سب جیسے پانی پہ لکھا صاحب
اخلاق کی قدروں کی تحقیر ہوئی اتنی
اخلاص کا گھر اجڑا اور پھر نہ بسا صاحب
احباب کی مجلس ہو یا محفل تنہائی
یاد آتی ہے اب ان کی اک ایک ادا صاحب
شاعر:ظفر مہدی