میں خود کو آزمانا چاہتا ہوں
ہوا پر آشیانہ چاہتا ہوں
جو ہمت ہے تو میرے ساتھ آؤ
افق کے پار جانا چاہتا ہوں
جو منت کش نہیں ہیں بال و پر کے
پرندے وہ اڑانا چاہتا ہوں
نگوں کر دے جو طوفانوں کا سر بھی
چراغ ایسا جلانا چاہتا ہوں
سکوں بخشے جو ہر آشفتہ سر کو
غزل ایسی سنانا چاہتا ہوں
نظر آ جائے جس میں عکس جاں بھی
وہ آئینہ بنانا چاہتا ہوں
سراسیمہ پشیماں دل گرفتہ
میں یہ موسم ہٹانا چاہتا ہوں
خیال و خواب جن میں حکمراں ہوں
وہی دنیا بسانا چاہتا ہوں
زیادہ مل گئی رونے سے راحت
ظفرؔ اب مسکرانا چاہتا ہوں
مأخذ : شعر و حکمت
شاعر:ظفر مہدی