کفر سے یہ جو منور مری پیشانی ہے
ظاہر اس سے بھی مرا جذبۂ ایمانی ہے
یہ جو یکسوئی میسر ہے مجھے شام و سحر
سر بسر میرے لیے وجہ پریشانی ہے
اس کنارے پہ فقط میں ہوں اکیلا خالی
نہر کے دوسری جانب مری حیرانی ہے
خاک اڑتی ہے تو ہر سو مرے اندر ورنہ
جس طرف میں ہوں وہاں چاروں طرف پانی ہے
جو سیہ فام ہے اندر کی طرف سے جتنا
اس کے چہرے پہ یہاں اتنی ہی تابانی ہے
موسموں سے ابھی مایوس نہیں ہوں یکسر
اک ہوا ہے جو ابھی میری طرف آنی ہے
دل میں کیا صورت حالات ہے کھلتا نہیں کچھ
کیا کمی ہے یہاں کس شے کی فراوانی ہے
یہ عجب طرح کا بازار سخن ہے کہ جہاں
میں ہی نایاب ہوں اور میری ہی ارزانی ہے
آزمائش میں ہی رکھتا ہوں سدا خود کو ظفرؔ
میری مشکل ہی سراسر مری آسانی ہے
شاعر:ظفر اقبال