پکارے جا رہے ہو اجنبی سے چاہتے کیا ہو
خود اپنے شور میں گم آدمی سے چاہتے کیا ہو
یہ آنکھوں میں جو کچھ حیرت ہے کیا وہ بھی تمہیں دے دیں
بنا کر بت ہمیں اب خامشی سے چاہتے کیا ہو
نہ اطمینان سے بیٹھو نہ گہری نیند سو پاؤ
میاں اس مختصر سی زندگی سے چاہتے کیا ہو
اسے ٹھہرا سکو اتنی بھی تو وسعت نہیں گھر میں
یہ سب کچھ جان کر آوارگی سے چاہتے کیا ہو
کناروں پر تمہارے واسطے موتی بہا لائے
گھروندے بھی نہیں توڑے ندی سے چاہتے کیا ہو
چراغ شام تنہائی بھی روشن رکھ نہیں پائے
اب اور آگے ہوا کی دوستی سے چاہتے کیا ہو
شاعر:ظفر گورکھپوری