تھی میرے دل کی پیاس تپش دشت کی نہ تھی
بجھتی سمندروں سے یہ وہ تشنگی نہ تھی
خود میں مگن تھے لوگ کوئی بے خودی نہ تھی
دیوانگی کا ڈھونگ تھا دیوانگی نہ تھی
رستہ بھی اب تو بھول گئے اپنے گھر کا ہم
وارفتگی تو تھی مگر اتنی کبھی نہ تھی
اپنی صدا کی گونج تھی صحرائے زیست میں
اس کے سوا کہیں کوئی آواز ہی نہ تھی
دل سے ظفرؔ ہوا تھا جو شعلہ سا اک بلند
تھا وہ بھی اک فریب نظر روشنی نہ تھی
مأخذ : خوشبوئے قبا
شاعر:ظفر احمد صدیقی