دیوانگی کی تجھ کو بھی اے کاش خو ملے
میں چار سو دکھائی دوں تو چار سو ملے
یہ انتہائے عشق ہے یا ارتقائے حسن
ہر شے میں میرا رنگ ملے تیری بو ملے
جوش حیا سے پاک ہوئی آرزوئے دل
خلوت میں دو جوان بدن با وضو ملے
دو چار باتیں اور مکمل خموشیاں
ہم دونوں یوں تو دیر تلک روبرو ملے
واللہ تو تو پھول ہے پہلی بہار کا
وہ کتنا خوش نصیب ہے جس کو کہ تو ملے
یوں تو ترے خود اپنے ہی ارمان کم نہیں
اے کاش تیرے دل کو مری آرزو ملے
مأخذ : بھینی بھینی مہک
شاعر:ظفر عدیم