مجھے تنہائی کے غم سے بچا لیتے تو اچھا تھا
سفر میں ہم سفر اپنا بنا لیتے تو اچھا تھا
شکست فاش کا غم زندگی جینے سے بد تر ہے
جھکانے کی بجائے سر کٹا لیتے تو اچھا تھا
کبھی اشکوں پہ اتنا ضبط بھی اچھا نہیں ہوتا
یہ چشمہ پھر ضرر دے گا بہا لیتے تو اچھا تھا
بھلا کیا فائدہ اب قبر پہ آنسو بہانے سے
اگر ماں باپ کی پہلے دعا لیتے تو اچھا تھا
شکایت سے بھلا ساحلؔ ہوا ہے فائدہ کس کا
غم دل گر ہنسی میں تم چھپا لیتے تو اچھا تھا
شاعر:عبدالحفیظ ساحل قادری