آؤ تا ش کھیلیں

0
180
Urdu Drama Story
- Advertisement -

لاجونتی: (اپنے پتی سے : اشتیاق بھرے لہجے میں آؤتاش کھیلیں۔

کشور: چونک کر کیا کہا؟

لاجونتی: کیا بہرے ہو گئے ہو؟۔۔۔ کل بھی پہربھر چلّاتی رہی اور تم نے خاک نہ سنا ۔۔۔ یہ سگرٹوں کی خشکی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔۔۔ کانوں میں بادام روغن کیوں نہیں ڈلواتے؟

کشور: نسخے بعد میں تجویز کرنا‘ پہلے یہ بتاؤ تم کہہ کیا رہی تھیں۔

لاجونتی: کہہ رہی تھی ‘ آؤ تاش کھیلیں۔

- Advertisement -

کشور: تاش کھیلیں ‘ یہ بھی کوئی وقت تاش کھیلنے کا ہے ‘ تم تو بے وقت کی شہنشاہ ہو۔

لاجونتی: اچھا یہ آج معلوم ہوا کہ تاش کھیلنے کا بھی ایک خاص وقت اور اک خاص لگن ہوتی ہے۔

کشور: میرا مطلب یہ تھا کہ جس طرح سیر کرنے کا وقت صبح سویرے یا شام ہوتا ہے اسی طرح تاش کھیلنے کا بھی ایک خاص وقت ہوتا ہے۔ ہر چیز کا ایک نہ ایک وقت ہوتا ہے۔ گانا وہی اچھا جو وقت پر گایا جائے۔ چائے صبح اور چار بجے ہی اچھی لگتی ہے۔ سگریٹ بھوک میں آندھی میں اور اندھیرے میں اچھا نہیں لگتا‘ کھا کے ‘ نہا کے‘ سو کے اور منہ دھو کے ہی اچھا لگتا ہے۔

لاجونتی: اور میں جناب سے یہ تو پوچھوں کہ آپ کے خوش خوش دکھائی دینے کا کون سا وقت مقرر ہے۔۔۔ میں نے تو جب دیکھا تمہیں جلا بھنا ہی دیکھا۔ گھر میں ایک دوا چھے بول منہ سے نکالنا بھی تمہیں دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ کوئی موٹی ایکٹرس بیٹھی ہو تو چٹاخ پٹاخ باتیں شروع کر دو۔بھلا مجھ نگوڑی سے تمہیں واسطہ ہی کیا ہے۔ تاش کھیلنے کو کہا تو چائے پینے اور موئے سگرٹ پینے کے وقت بتانے شروع کر دیئے۔ بھلاتاش کھیلنے سے ان کا کیا واسطہ ۔کھیل جب کھیلو کھیل ہے اور جب کھیلا جائے وہی اس کا وقت۔

کشور: بس میرے منہ سے بات نکلی نہیں کہ پکڑی گئی۔ اچھا لاؤ تاش کھیلیں۔

لاجونتی: گویا میرے باپ دادا پر بڑا احسان ہو رہا ہے۔ اگر نہیں کھیلنا ہے تو نہ کھیلیں کوئی زبردستی تھوڑی ہے۔۔۔ ذرا آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو ۔ حکم کے غلام بنے ہوئے ہو‘ کیا یہی منہ لے کر کلب میں تاش کھیلا کرتے ہو؟

کشور: تم اب اس قصے کو چھوڑونا۔۔۔ آؤ تاش کھیلیں۔

لاجونتی: تمہارے ساتھ کوئی بازی لگا کر کھیلے تو تمہیں مزا بھی آئے۔۔۔ میں تمہارے ساتھ کھیلوں گی تو نہ کوئی داؤ ہو گا نہ شرط‘ بھلا ایسے سوکھے کھیل سے تمہیں کیا دلچسپی۔ گرہ سے دس بیس روپے نکلنے کا ڈر ہو تو تم کھیلو بھی۔

کشور: میں اب کہہ جو رہا ہوں کہ لاؤ تاش ‘ کھیلتا ہوں۔۔۔ اب کیا اشٹام لکھ دوں ۔۔۔ پر میں پوچھتا ہوں کہ تمہیں بیٹھے بیٹھے آج یہ تاش کھیلنے کی کیا سوجھی؟۔۔۔

تاش کے پتے تو ٹھیک سے تم پکڑ نہیں سکتیں کھیلوگی کیا خاک۔

لاجونتی: تم ماں کے پیٹ سے تو یہ سب کھیل سیکھ کر نہیں آئے۔ دو دن کھیلوں گی‘ سب سمجھ میں آجائے گا اور پھر تاش کھیلنے میں کون سے پہاڑے یاد کرنا پڑتے ہیں۔

۔۔۔جس کا پتا بڑا ہوا جیت گیا۔

کشور: لاؤ تاش کہاں ہے؟

لاجونتی: یہ لو( تاش کے پتے پھینٹنے کی آواز)

کشور: ذرا سلیقے سے ملاؤ‘ یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔ پلیٹ میں انڈے پھینٹے جا رہے ہیں یا چھاج میں دال پھٹک رہی ہو۔

لاجونتی: مجھے نہ پڑھاؤ ‘ میں تمہاری سب چالبازیاں سمجھتی ہوں۔ یہ لو اب بانٹو۔۔۔ میں ایسی کی ایسی تاش تمہارے ہاتھ میں دے دیتی اور تم سب اچھے پتے آپ لے جاتے۔۔۔ اب جلدی سے بانٹ دو۔۔۔ کوئی گڑ بڑ کی تو یاد رکھنا لڑائی ہو جائے گی۔

کشور: دو ڈھیریاں بنا دیتا ہوں‘ جو اچھی لگے اٹھا لو(میز پر ڈھیریاں بنانے کی آواز)

لاجونتی: اٹھالی۔

کشور: لواب پتاگراؤ۔

لاجونتی: اب لگے۔۔۔

کشور: لوبابا۔۔۔ اف کرنے کی بھی تو اجازت نہیں۔۔۔ یہ رہا میز پر پتا پھینکتا ہے۔۔۔ حکم کا دہلا۔

لاجونتی: ٹھہرو۔۔۔ ٹھہرو۔۔۔ اس کو کون جیتے گا۔۔۔ ہاں ‘ ہاں۔۔۔ (پتا پھینکنے کی آواز) حکم کا غلام۔۔۔ ہنستی ہے جیت لیا‘ جیت لیا۔۔۔ چلو اب دوسرا آؤ۔

کشور: اب تمہاری باری ہے۔

لاجونتی: واہ ‘ ایک تو ہم پتا جیتیں اور پھر ہم ہی پتا گرائیں یہ کہاں کا دستور ہے؟

کشور: تم پتا گراؤ۔۔۔ پر ماتما کے لیئے میرا مغز نہ چاٹو۔۔۔ اب تمہاری باری ہے۔

جو جیتتا ہے‘ وہی کھیلا کرتا ہے۔

لاجونتی: تو لو۔۔۔ ہم بالکل چھوٹا پتا کھیلیں گے یہی سہی۔۔۔ ہمیں کیا ضرورت ہے اچھا پتا کھیلنے کی یہ لو‘ ہم نے پان کی تِکّی کھیلی۔

کشور: اور ہم نے چوکے سے اٹھا لی۔

لاجونتی: کبھی مجھے اٹھا کے دیکھو جب جانوں۔۔۔ چوکے میں تم جیسے گندے آدمیوں کو کبھی گھسنے نہ دوں۔

کشور: اب تم یہ بیچ میں چوکے اور رسوئی کا جھگڑا کیا لے بیٹھی ہو۔ ہم تاش کھیل رہے ہیں۔ باورچی خانے میں بیٹھے چولہے نہیں سلگا رہے۔

لاجونتی: باورچی خانے میں کبھی چولہا سلگا ناپڑ جائے تونانی یاد آجائے تمہیں ۔۔۔ باورچی خانے میں بیٹھے چولہے نہیں سلگا رہے۔ کیابھولے سے منہ کے ساتھ تم نے یہ کہہ دیا ہے۔ کوئی سمجھے یہ چولہا سلگانا معمولی کام ہے۔ میری آنکھیں خراب ہو گئی ہیں‘ ہر روز کے دھوئیں سے سجھائی کم دینے لگاہے اور ابھی یہ چولہے سلگانے کا کام بڑاآ سان ہے‘ بڑا معمولی ہے۔۔۔

کشور: معلوم ہوتاہے کہ آج تم اس تاش سے چولہا سلگوانا چاہتی ہو۔۔۔ میں سچ کہتا ہوں‘ یہ سب پتے اٹھا کر چولہے میں جھونک دونگا۔ تمہیں تاش کھیلناہو۔ تو سیدھے من سے کھیلو۔ بیچ میں یہ لیکچر نہ شروع کرو۔

لاجونتی: آپ ناراض ہو گئے۔۔۔ چلوچلو۔۔۔ ہاں ہاں‘ میں بھولی ‘ میری باری ہے‘ یہ لوپان کی بیگم۔

کشور: پان کے شاہ نے کاٹ دی۔

لاجونتی: نہ رہے اس دنیا کے تختے پر۔۔۔ ان سارے پتوں میں ایک ہی بیگم آئی تھی اور یہ موا شاہ کاٹ لے گیا۔۔۔ یہی بات مجھے اس تاش میں بری لگتی ہے۔ بھلا بیگم اور کاٹ لی جائے۔ گویا اس کی کوئی بڑائی ہی نہیں۔

کشور: دس پتوں۔۔۔ دُکی سے لے کر غلام تک پر تمہاری اس بیگم کی تلوار چلتی ہے جس پتے کا سرچا ہو بھٹا سا اڑا دو۔ اب اور کتنے اختیار چاہتی ہو:

لاجونتی: نہیں ‘ میں اتنی اجازت دے سکتی ہوں کہ بیگم ‘ شاہ سے اٹھائی جا سکتی ہے ان دونوں کا کچھ جوڑا ہوا۔ بادشاہ بیگم کو ٹھنڈے دل سے لے جائے‘ پر اور کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ لیکن اس موئے کتے کو تم نے یوں ہی بڑا بنا دیا ہے۔ تمہیں بتاؤ‘ ایک سے دو بڑا ہوتا ہے یا نہیں؟

کشور: ہاں ہوتا ہے۔

لاجونتی: پرماتما تمہارا بھلا کرئے۔۔۔ اب یہ سوچو کہ یکّا کو دُکی کیوں نہیں کاٹ سکتی۔

کشور: یہ کھیل کے خلاف ہے۔ اکے کو دگی کاٹنے کا قاعدہ نہیں ہے۔

لاجونتی: قاعدہ نہیں ہے‘ دستور نہیں ہے‘ یہ کیا ہوا۔۔۔ واہ جی واہ لوگ پرانے قاعدے اور پرانے قانون توڑنے کے لیئے اپنے پیاروں کی جانیں دے رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہرلال جی نے قیدیں کاٹیں کہ نئے قاعدے اور نئے قانون بنیں اور تم وہی لکیر کے فقیر بنے رہے۔۔۔ ذرا کبھی عقل سے بھی کام لیا کرو۔ شاہزادی کو شاہ لے گیا‘ اس لیئے کہ وہ اسی کی تھی۔ پر یہ موا یکاّ جس کا نہ سر پر پیر‘ یہ کیوں سب کا پنچ ہوا۔۔۔ اسے کیوں بڑا بنا دیا گیا ہے؟۔۔۔ ہٹاؤ اس کو۔ اگر باون پتوں میں سے ایک یہ کم ہو جائے تو کیا فرق پڑ جائے گا۔۔۔ قاعدے بنائے ہوئے ہیں دستور یہ ہے ‘ نوج ایسے کھیل پر۔۔۔ اور ہاں میں تم سے یہ تو پوچھوں کہ تمہارے قاعدے بنانے والوں نے تاش میں استریاں کتنی رکھی ہیں؟

کشور: استریاں کتنی رکھی ہیں کس نے؟

لاجونتی: میں یہ پوچھتی ہوں کہ تاش میں کتنے پتے استریاں ہیں۔۔۔ یعنی عورتیں کتنی ہیں؟

کشور: استریاں۔۔۔عورتیں؟۔۔۔ تمہیں ہر وقت ان باتوں ہی کا کھٹکا رہتا ہے۔ سارا دن تمہارے پاس رہتا ہوں ‘ پھر بھی تمہارا شک دور نہیں ہوتا۔۔۔ میں تمہارے سوا کسی اور استری کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔

لاجونتی: (کِھلکھلا کر ہنستی ہے) چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔۔۔ اجی جناب میں یہ پوچھ رہی ہوں کہ اس تاش میں کتنے پتے‘ ایسے ہیں جو مونث ہیں۔

کشور: (گھبرا کر ) اوہ ‘ تم یہ پوچھ رہی تھیں۔۔۔ کہ تاش میں کتنے پتے ایسے ہیں جو مونث ہیں اور میں یہ سمجھا کہ تم یہ پوچھ رہی ہو۔۔۔ لو ابھی بتائے دیتا ہوں۔۔۔ تاش میں اتنی عورتیں ۔۔۔نہیں ‘ اتنے پتے عورتیں ہیں۔۔۔ دُکی۔۔۔تِکّی ۔۔۔ اور ۔۔۔اور بیگم۔۔۔اور۔۔۔

لاجونتی: بس کرو۔ فقط تین ۔ باون پتوں میں صرف تین ۔ تم لوگ انچاس اور ہم صرف تین ۔ یہ بھی عجب انصاف ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس تاش کا بنانے والا کوئی مردوں کا طرفدار بڑا بے انصاف آدمی تھا۔

کشور: ارے تم تو تین قبول رہی ہو۔ اگر پتوں میں ایک فقط بیگم ہی ہوتی تو باقی اکاون کامقابلہ کرنے کو کافی سے زیادہ تھی۔

لاجونتی: اس فوج کا سپہ سالار تمہیں بنایا جاتا۔۔۔ کیا اچھے لگتے‘ ایک عورت کا مقابلہ کرتے۔ کوئی پوچھتا یہ فوج کس دشمن پر دھاوا بول رہی ہے تو جواب دیتے ایک نہتی عورت پر۔۔۔ مردانگی اسی کا نام ہے۔

کشور: بات میں سے بات نکالتی ہو۔ دل سے نیو ڈالتی ہو اور پھراینٹ پراینٹ اور ردّے پر ردّاچڑھاتی ہو اور جس بات کو پکڑ لیتی ہو پھر پیچھا نہیں چھوڑتی ہو۔۔۔ کا ہے کا دماغ پایا ہے۔

لاجونتی: صاف صاف کیوں نہیں کہتے ‘ کس کا دماغ پایا ہے۔۔۔ تو وہ بات بات پر چلانے کی عادت تمہاری ہی ہے۔نوج تم سے کوئی الجھے میری باتیں تو طورطر یقے کی ہوتی ہیں۔

کشور: یعنی تم بات کرتی ہو تو یوں معلوم ہوتا ہے‘ منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں‘ کیوں؟۔۔۔ پرآتش بازی کے پھول جو کلیجے کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتے ہیں۔

لاجونتی: تمہاری طرح نہیں کہ بات کرتے جاتے ہو اورسوئیاں کلیجے میں چبھوتے جاتے ہو۔ ایک ایک تمہاری بات ایک ایک تیر اور وہ بھی زہر میں بجھا ہوا۔ اس لیئے تو میں بھولے سے بات نہیں کرتی۔ میں نے بھلا کیا کہا تھا۔ یہی ناکہ آؤ تاش کھیلیں بس اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا۔

کشور: میں نے افسانہ تو نہیں کیا۔ تم ہی رامائن لے کر بیٹھ گئی ہو ‘ جو ختم ہی نہیں ہوتی: تاش کھیلنے بیٹھ گیا تو شروع ہو گئیں۔ شہزادی کو شاہ کیوں کاٹے یکاّ کو دُکی کیوں نہ اٹھائے۔ تاش بنانے والا۔۔۔

لاجونتی: بے شک گدھا تھا‘ پاجی تھا‘ لے اب سنا اور مجھے چھیڑو۔

کشور: لاجونتی۔۔۔

لاجونتی: اس موئے تاش بنانے والے پر سات جھاڑو اور حقے کا پانی۔ اور سنو۔

کشور: اچھا بھئی تو بہ ہوئی۔ توبہ میری توبہ آؤ تاش کھیلو۔

لاجونتی: جاؤ نہیں کھیلتی کھیلے میری جوتی ۔ کھیلے میری پیزار۔ سنا کہ نہیں ۔ تم جاؤ۔ ا ن موئی لفتیوں سے تاش کھیلو۔ تم کو انہیں سے کھیلنے میں مزا آتا ہے۔

کشور: ارے ارے ۔۔۔ ارے۔۔۔ اتنا غصہ ۔۔۔ بات کا بتنگڑ اسی کو کہتے ہیں لے اب غصہ جانے دو۔ اب میں کچھ کہوں تو جو چور کی سزا وہ میری۔۔۔!

لاجونتی: بات کا بتنگڑکہہ دیا اور کچھ کہا ہی نہیں۔ وہ تمہیں ہو جو پھسری کا بھکندر کرتے ہو۔ آگ لگے اس کھیل کو جھاڑو پھیرے اس کھیل پر‘ میں درگزری ایسا کھیل کھیلنے سے ۔ موا کھیل نہ ہوا ‘ جان کا وبال ہوا۔۔۔ اتنی لڑائی لڑے نگوڑے اس ادنیٰ سے کھیل کے واسطے چولہے میں جائے کھیل اور بھاڑ میں جائے کھیلنے والا (تاش زور سے میز پر پھینکتی ہے۔ اس کی آواز )

کشور: اب چولہے بھاڑ میں مجھے جھونک چکیں۔ دل ٹھنڈا ہو گیانا؟۔۔۔ لے آؤ اب تاش کھیلو۔

لاجونتی: تاش کھیلے میری بلا ۔ تم جاؤ ان اپنی ہوتیوں سوتیوں کے ساتھ تاش کھیلو وہ موئی لالمنہ بندریاں نگوڑی مچھلی پھیریاں ‘ وہ ہی تمہاری سب کچھ ہیں میں تمہاری کون؟۔۔۔ نہ تین میں نہ تیرہ میں، نہ تسلی کی گرہ میں۔

کشور: تم میری پتنی۔۔۔ میرے سہرے جلوے کی بیاہی ‘ گھر کی ملکہ میرے من مندر کی دیوی ‘ میری سب کچھ۔۔۔ تم پر سے ہزار مچھلی پھیریاں قربان۔۔۔ آؤ میری لاج‘ غصے کو تھوک دو میری جان۔۔۔ آؤ تاش کھیلیں۔۔۔ لو اب مسکرا دو۔۔۔ تمہیں میری جان کی قسم۔۔۔ مجھے ہی ہائے ہائے کرکے پیٹو۔ اگر نہیں مسکراؤ۔

لاجونتی: اچھا ٹھیرو‘ کھیلتی ہوں‘ پر ایک شرط ہے۔

کشور: وہ کیا؟۔۔۔ جو شرط بھی ہو مجھے منظور ہے۔

(نرائن کھانستا ہوا آتا ہے)

نرائن: آخاہ۔۔۔ آج تو بھابی جان تاش کھیل رہی ہیں ‘ پر معلوم ہوتا ہے‘ ابھی تک بازی نہیں لگی۔۔۔ چلو یہ بھی اچھا ہوا۔۔۔نمسکار بھابی جان۔۔۔ آج ذرا مجھے دیر ہو گئی ایک دوست کے ہاں بیٹھ گیا۔۔۔ اس نے مجھے تاش کا ایک کھیل دکھایا اور میرے ہوش گم کر دیے ۔ میں جو پتا کھینچوں وہ جھٹ سے بتا دے ‘ بڑی دیر تک میں اس کی منتیں سماجتیں کرتا رہا آخر کار اس نے یہ کھیل مجھے سکھا دیا۔۔۔

کشور: سیکھ آئے ہونا؟

نرائن: ہاں ہاں سیکھ آیا ہوں ‘ تمہیں ابھی دکھاتا ہوں (تاش پھینٹنے کی آواز) باون پتے پورے ہیں نا؟

کشور: پورے ہیں۔۔۔ تم اپنی بھابھی کو کھیل دکھاؤ‘ میں ابھی آیا۔

نرائن : کہاں چلے؟

کشور : میں کپڑے تبدیل کرکے ابھی آتا ہوں۔ تم انہیں کھیل دکھاؤ۔

نرائن: اچھا بھئی تمہاری مرضی (تھوڑا سا وقفہ)۔۔۔ بھابی آج کشور بڑا گھبرایا گھبرایا دکھائی دیتا ہے۔

لاجونتی: مجھے کیا معلوم ‘ آپ جانتے ہوں گے۔۔۔ کسی ایکٹر س ویکٹر س کے ہاں جانے کی ٹھانی ہوگی۔ انکے راز تو صرف آپ ہی کو معلوم ہوتے ہیں۔

نرائن: نہ نہ نہ ۔۔۔ مجھ سے قسم لے لیجئے جو مجھے معلوم ہو کہ آج اس کے من میں کیا ہے میں آج ادھرآیا بھی تو صرف اس لیئے کہ جونیا کھیل سیکھا ہے آپ کو دکھا تا جاؤں۔ بڑا دلچسپ کھیل ہے۔۔۔ دکھاؤں آپ کو؟

لاجونتی: دکھائیے‘ پر آپ کیا سچ کہتے ہیں کہ آج ان کی کسی کے ساتھ اپائنٹ منٹ نہیں ہے؟

نرائن: (تاش پھینٹتے ہوئے ‘ جو نساپتّا آپ اس میں سے ۔۔۔ ہاں کیا کہا آپ نے؟

لاجونتی: کچھ بھی نہیں۔۔۔ ہاں جونساپتّا۔۔۔

نرائن: آپ ان میں سے کھینچیں گی میں آپ کو بغیر دیکھے بتا دوں گا۔ سمجھیں آپ۔۔۔ بغیر دیکھے یعنی میں بالکل نہیں دیکھوں گا اور آپ کو آپ کا کھینچا ہوا پتّا بتا دوں گا۔

بغیر دیکھے۔۔۔

لاجونتی: بغیر دیکھے۔۔۔ ہوں۔۔۔ پر آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ دوسرے کمرے میں کیا کرنے گئے ہیں؟

نرائن: (تاش پھینٹتے ہوئے) بغیر دیکھے۔۔۔(چونک کر) کیا کہا آپ نے؟

لاجونتی : کچھ بھی نہیں۔۔۔ ہاں تو بغیر دیکھے آپ میرا کھینچا ہوا پتّابتا دیں گے۔۔۔

بھلا وہ کیسے؟

نرائن: ایسے۔۔۔ایسے۔۔۔ کہ میں تاش کے یہ سارے پتے آپکے سامنے یوں پھیلاتا جاؤں گا۔۔۔ آپ ان میں سے کوئی ساپتا‘ یعنی جونسا آپ چاہیں ۔۔۔ کھینچ لیں‘ پر مجھے نہ بتائیں کہ وہ کونسا پتّاہے۔۔۔ اس کے بعد میں آپ کو بتا دوں گا کہ آپ کا پتا کیا تھا۔۔۔ کیوں کیسا ہے یہ کھیل؟

لاجونتی: پھیلائیے پتے!

نرائن: یہ رہے۔۔۔ ہاں ہاں کوئی ساپتا کھینچ لیں۔۔۔ تو کھینچ لیا آپ نے؟

لاجونتی: پان کاستا کھینچا ہے۔

نرائن: آپ نے پان کا ستاہی کھینچا ہو گا‘ پر مجھے کیوں بتا دیا۔۔۔ آپ پتا کھینچیں پر مجھے نہ بتائیں۔ یہ بتانا ہی تو اصل چیز ہے۔۔۔ یعنی دیکھئے ناکہ مجھے بغیر دیکھے آپ کا کھینچا ہوا پتا بتا نا ہے۔۔۔ سو اب آپ جو پتا کھینچیں۔ مجھے نہ بتائیں بلکہ اپنے دل میں رکھیں اور دیکھیں کہ میں ٹھیک بتاتا ہوں کہ غلط۔۔۔ لیجئے ایک پتا اور کھینچئے۔۔۔ کھینچ لیا؟

لاجونتی: جی ہاں کھینچ لیا۔

نرائن: (تاش پھینٹے ہوئے) اب میں یہ سارے پتے آپ کو دے دیتا ہوں۔ آپ جہاں چاہیں اپنا پتا رکھ دیں۔

لاجونتی: لائیے (تاش پھینٹتی ہے) رکھدیا۔

نرائن: لائیے (تاش پھینٹتا ہے) رکھدیا اور آپ نے ملا بھی دیا۔۔۔ بہت اچھا کیا۔۔۔ لیجئے اب میں آپ کو آپ کا پتا بتا تا ہوں پر آپ کو یاد ہے نا؟

لاجونتی: یاد ہے‘ اینٹ کی تِکّی تھی۔

نرائن: اے لو‘ آپ نے پھر مجھ سے اپنا پتا کہہ دیا۔۔۔ ارے بھابی جان آپ دل میں یاد رکھیے مجھ سے کہیئے نہیں۔۔۔ (تھک ہارکر) اب میں آپ کو کیسے سمجھاؤں’ دیکھئے جو پتا آپ کھینچیں ‘ اسے اس طور پر دیکھیں کہ میں دیکھنے نہ پاؤں اور پھر اس کو دل میں یاد رکھیں اور مجھے ہرگز ہرگز نہ بتائیں۔۔۔ میرے پوچھنے پر بھی نہ بتائیں۔۔۔ سمجھیں آپ؟

لاجونتی: اب میں بالکل سمجھ گئی۔۔۔ لائیے پتا کھینچوں۔

نرائن: (تاش پھینٹتے ہوئے ‘ میں نے جو کچھ کہا ہے اس کا خیال رہے گا نہ آپ کو؟

لاجونتی: ہاں ہاں ‘ کیوں نہیں۔۔۔ پر آپ جلدی کیجئے‘ مجھے دوسرے کمر ے میں جا کرپتہ لینا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ نرائن۔ دوسرے کمرے میں ؟۔۔۔ ہاں ہاں بڑے شوق سے آپ دوسرے کمرے میں جا کر اپنا پتا ملا سکتی ہیں‘ میں پھر بھی آپ کو بتا دوں گا۔۔۔ کھیل ہے مذا ق نہیں ہے۔

لاجونتی: آپ پتا ‘ کھنچوائیے۔

نرائن : (تاش پھینٹے ہوئے) یہ لیجئے۔

لاجونتی: کھنچ لیا۔

نرائن: یہ لیجئے تاش ۔ اب اس میں ملا دیجئے۔

لاجونتی: (تاش پھینٹتے ہوئے) ملا دیا۔

نرائن: مجھے واپس دیجئے (تاش پھینٹتا ہے) د یکھیئے اب میں نے سب پتے پھینٹ دئیے ہیں‘ دیکھا آپ نے ؟ ۔۔۔ سب کے سب ملا دئیے۔ اب تو مجھے نہیں معلوم کہ آپ کا پتا کہاں ہے۔۔۔خیر اس کو چھوڑئیے‘ آپ کو اپنا پتا خوب یاد ہے نا؟۔۔۔ کہیں بھول تو نہیں گئیں؟

لاجونتی: بھول کیسے سکتی ہوں۔ پان کا ستا تھا۔

نرائن: (تاش کی گڈی زور سے میز پر پٹکتے ہوئے) پان کاشاہی ہو گا‘ پرکس۔۔۔ کس احمق نے آپ سے کہا کہ آپ بتا دیں۔۔۔ میں ۔۔۔ میں۔۔۔ اب میں کیا کہوں۔ ارے بھئی۔۔۔ تو بہ ۔۔۔ اچھا ٹھہرئیے‘ ایک بار آپ پھر کھینچئے۔ دراصل میں چاہتا ہوں کہ آپ یہ کھیل ضرور دیکھیں۔۔۔ یہ یقین مانئے بہت دلچسپ ہے۔

لاجونتی: (رازدار انہ لہجے میں) ٹھہرئیے‘ میں ذرا دیکھوں تو وہ دوسرے کمرے میں اتنی دیر سے کر کیا رہے ہیں میں ابھی آئی۔

نرائن: اور یہ کھیل؟۔۔۔ یہ کھیل۔۔۔ بھابی جان‘ بھابی جان۔۔۔ سنیئے تو۔۔۔ یہ کھیل جو میں ابھی ابھی سیکھ کے آیا ہوں۔۔۔ چلی گئیں (تاش کے پتے پھینٹنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔ چونک کر) کشور۔۔۔ کشور۔۔۔ ذرا ادھر آؤ۔۔۔ یہاں بیٹھو۔ ایک کھیل دیکھو۔

کشور: کیسا کھیل؟

نرائن: ارے بھئی تاش کا اور کس کا۔۔۔ دیکھو گے توہوش گم ہو جائیں گے۔۔۔ یہ لو‘ میں پھر پھیلاتا ہوں۔ تم ان میں سے کوئی ساپتا کھینچ لو۔۔۔ اور اسے دیکھ کر تاش میں ملا دو‘ پر مجھے نہ بتانا کہ تمہارا کون ساپتا تھا۔ سمجھے ‘ میں بن دیکھے تمہارا پتا بتادوں گا ‘ یعنی دیکھے بغیر۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ کیسا ہے یہ کھیل؟

کشور: اچھا ہے ‘لیکن پھر کبھی دکھانا۔۔۔ اس وقت کوئی اور کھیل د یکھنے کو جی چاہتا ہے ۔

نرائن: لیکن کشور۔۔۔ تم سن تو لو۔۔۔ شاید تم سمجھے نہیں۔۔۔ میں یہ سب پتے تمہارے سامنے پھیلاتا جاؤں گا‘ اور تم سے کہوں گا کہ ان میں کوئی سا پتا کھینچ لو۔

کشور: یہ بکواس بند کرو۔۔۔ چلوچلو‘ اٹھو۔۔۔ ارے ‘ تم سنتے ہو کہ نہیں۔۔۔ پیشتر اس کے کہ وہ آنکلے ہمیں یہاں سے چل دینا چاہیئے ‘ کھیل شروع ہونے میں صرف دس منٹ رہ گئے ہیں۔

نرائن: میں بس ایک منٹ میں اپنا کھیل ختم کر دوں گا کشور۔۔۔ تم ذرا یہاں بیٹھونا۔۔۔ دیکھو‘ یہ رہے پتے۔۔۔ میں ابھی ابھی یہ کھیل سیکھ کر آرہا ہوں۔۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم اسے پسند کروگے۔۔۔ میں تمہارا پتا بن دیکھے بتا دونگا۔۔۔ بن دیکھے۔۔۔

کشور: (نرائن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا ہے) بند کرتے ہو کہ نہیں اس بکواس کو۔

نرائن: (منہ بند ہے‘ لیکن بولے چلا جاتا ہے) کشور‘ صرف ایک منٹ لگے گا۔۔۔

اور تم یہ کھیل دیکھ لو گے۔۔۔ یقین مانو بہت دلچسپ ہے۔۔۔ میں بن دیکھے۔۔۔

فیڈآؤٹ

مأخذ : کتاب : آؤ اشاعت : 1940

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید ڈرامے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here