بیمار

0
194
Urdu Drama Stories
- Advertisement -

افراد

کمار : (بیمار)

گڈوانی :

رشید :

بیدی : کمار کے دوست

- Advertisement -

آتما سنگھ :

مادھو : کمار کا نوکر

(کھانسنے کی آواز سنائی دیتی ہے)

کمار: (کھانستا ہے) مادھو۔۔۔مادھو۔۔۔(کھانستا ہے)۔۔۔مادھو۔۔۔

مادھو: (آواز دُورسے آتی ہے) جی آیا صاحب۔

کمار: ادھر آ بھاگ کے۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔اُف۔۔۔۔۔۔اُف، اس بخار نے مجھے کس قدر نڈھال کردیا ہے۔۔۔۔۔۔(کھانستا ہے) ارے مادھو!

مادھو: آیا صاحب۔۔۔۔۔۔بس ابھی حاضر ہوا سرکار(آواز دُور سے آتی ہے)۔۔۔۔۔۔

کمار: تو جب تک حاضر ہوگا۔ میری جان لبوں تک آجائے گی کمبخت۔۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہوتا ہے تجھے بخار سے کبھی واسطہ نہیں پڑا۔

مادھو: کیا حکم ہے سرکار؟

کمار: سرکار کے بچے۔۔۔۔۔۔اتنی دیر سے جو تجھے بُلا رہا ہوں کیا تو نے کانوں میں رُوئی ٹھونس رکھی ہے۔

مادھو: میں۔۔۔میں۔۔۔سرکار، باورچی خانے میں برتن صاف کررہا تھا۔ فرمائیے کیا حکم ہے؟

کمار: مجھے دوا پلا۔۔۔۔۔۔وقت ہوگیا ہے اور تجھے خبر ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ کوئی مرے کوئی جئے تیری بلا سے۔۔۔۔۔۔(کھانستا ہے) پردیس تو ویسے ہی دکھ سے بھرا ہوتا ہے اور جب بخار چڑھ جائے تو اور مصیبتیں آگھیرتی ہیں۔۔۔(کھانستا ہے) دوست یار اتنے ہیں۔ پر کسی نے بھولے سے بھی اس طرف کا رخ نہیں کیا۔۔۔دوا بنائی تو نے؟

مادھو: بنا لی سرکار۔۔۔جوڈاکدار صاحب نے رات کو پلائی تھی۔ تھوڑی سی، چار پانچ گھونٹ وہ بھی میں نے’’مکسچر‘‘ میں ڈال دی ہے۔

کمار: کیا؟

مادھو: یہ بوتل والی۔۔۔(میز پر سے بوتل اٹھانے کی آواز، یہ رہی بوتل سرکار!

کمار: (زور سے) تیرا ستیاناس ہو۔۔۔۔۔۔ برانڈی کے تین پیگ غارت کردیئے نابکار۔۔۔۔۔۔

(کھانستا ہے)یہ تجھ سے کس نے کہا تھا کہ فیور مکسچر میں برانڈی گھول دے۔۔۔۔۔۔

مادھو: نہیں صاحب۔ دوسری بوتل کی دوا بھی تو ڈالی ہے۔

کمار: کون سی؟

مادھو: یہ رہی صاحب(بوتل اٹھانے کی آواز)

کمار: تیرا بیڑا غرق ہو مادھو۔۔۔۔۔۔ تیرا بیڑا غرق ہو۔۔۔۔۔۔ جا دور ہو جا(کھانستا ہے) پاجی۔۔۔۔۔۔یو، ڈی کلون کی ساری شیشی تو نے فیور مکسچر میں ڈال دی ہے۔۔۔۔۔۔ تیرا ستیاناس ہو(کھانستا ہے) تو آج مجھے کس قسم کی دوا پلانا چاہتا ہے؟

مادھو: سرکار۔۔۔!

کمار: خبردار جو تونے اب کوئی بات کی۔۔۔۔۔۔ بھاگ جا یہاں سے بھاگ جا۔۔۔ ارے میں تجھ سے کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔ دُور ہو جا میری نظروں سے۔

مادھو: اچھا صاحب، جاتا ہوں۔۔۔پر۔۔۔

کمار: تو چلا جا یہاں سے۔ میں کچھ سُننا نہیں چاہتا۔۔۔(کھانستا ہے)۔۔۔اُف، اُف۔۔۔کھانسی سے بُرا حال ہورہا ہے۔ اور اس نابکار نے ساری دوا کا ستیاناس مار دیا ہے۔۔۔یہ تو خیر گزری جو میں نے اس سے پوچھ لیا۔ ورنہ فیور مکسچر میں برانڈی اور یوڈی کلون پینا پڑتے(بے اختیار ہنستا ہے) فیور مکسچر، برانڈی اور یو ڈی کلون۔۔۔کیا جوڑ ہے(ہنستا ہے)

(گھنٹی بجتی ہے)

کمار: چلے آؤ۔۔۔۔۔۔بھئی چلے آؤ۔۔۔۔۔۔(آہستگی سے) شکرہے کوئی آیا تو ہے۔

(دروازہ کھلنے کی آواز سُنائی دیتی ہے)

گڈوانی: کیا قصہ ہے بھئی، آج۔۔۔۔۔۔تم پیٹ بھر کے ہنس رہے ہو۔۔۔۔۔۔ کیا گھر سے خرچ آیا ہے۔۔۔۔۔۔یا کسی لاٹری کا ٹکٹ نکل آیا ہے؟

کمار: (زور سے ہنستا ہے۔۔۔۔۔۔پھر زور زور سے کھانسنا شروع کریتا ہے)

گڈوانی: ارے کیا ہوگیا ہے تم پاگل تو نہیں ہوگئے۔۔۔۔۔۔ اور یہ کمبل کیا اوڑھ رکھے ہیں تم نے؟

کمار: (کمزور آواز میں) بیٹھ جاؤ۔ میں تمہیں سب کچھ بتاتا ہوں(کھانستا ہے)کل سے مجھے بخار آرہا ہے۔ کھانسی بھی ہے(کھانستا ہے)

گڈوانی: تو کون سی آفت آگئی۔

کمار: کل رات ڈاکٹر بلوایا تھا۔ ایک مکسچر دے گیا ہے۔ دو خوراکیں پی ہیں۔ اب تیسری پینا تھی۔ مادھو کوبُلایا کہ بوتل میں سے دوا انڈ یل دے۔ اور اس نے یہ ساری بوتلیں گلاس میں خالی کردیں۔

گڈوانی: یو ڈی کلون، اوربرانڈی؟

کمار: ہاں، ہاں، یہ پڑا ہے ناگلاس؟

گڈوانی: (ہنستا ہے) بائی گاڈ۔۔۔۔۔۔ تمہارا یہ مادھو اب اس قابل ہوگیا ہے کہ اسے چڑیا گھر بھیج دیا جائے۔

کمار: میں اس کی بیوقوفی پر ہنس رہا تھا۔

گڈوانی: اور میں تمہاری بیوقوفی پر ہنس رہا ہوں تمہیں کھانسی ہورہی ہے۔ بخار بھی ہے اور ابھی تک تم نے علاج ہی شروع نہیں کیا۔

کمار: مکسچر پی تو رہا ہوں۔

گڈوانی: وہ بھی اسی قسم کا ہوگا۔ جیسا کہ تمہارے مادھو نے تیار کیا ہے۔۔۔ یہ ڈاکٹر بھلا کیا جانیں کھانسی اور بخار کا علاج۔۔۔ تم نے کل مجھے اطلاع دی ہوتی تو میں یوں چٹکیوں میں ٹھیک کردیتا۔۔۔خیر اب بھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ مادھوکہاں ہے؟

کمار: اندر ہے(کھانستا ہے)

گڈوانی: مادھو۔۔۔مادھو!

مادھو: آیا صاحب۔۔۔۔۔۔کیاحکم ہے سرکار؟

گڈوانی: تو اتنا بڑا ہوگیا ہے،منھ پر اتنی بڑی داڑھی لیئے پھرتا ہے پر ابھی تک تجھے بخار کا علاج معلوم نہیں ہُوا۔۔۔۔۔۔ جا کسی عطّار کی دکان سے دو پیسے کی املی اور دو پیسے کا آلو بخارا لے آ۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ہی بازارسے مٹی کا ایک آبخورہ بھی لے آئیو۔۔۔۔۔۔سمجھ میں آگیا نا؟ دو پیسے کی املی اور دو پیسے کا آلو بخارا۔۔۔۔۔۔جا بھاگ کے جا۔

کمار: (کھانستا ہے) املی اور آلو بخارا؟

گڈوانی: تم یوں پوچھتے ہو۔ جیسے میں نے سمرقند اور بخار ا منگوانے بھیجا ہے اسے۔

کمار: گڈوانی۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں چیزیں کھٹی ہیں اور میں(کھانستا ہے) کھانسی سے مررہا ہوں۔

گڈوانی: تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔۔۔لوہے کولوہا کاٹ سکتا ہے کھانسی کا توڑ صرف املی اور آلو بخارا ہے۔ پرانے زمانے کا سب سے اچھا علاج ہے۔ سو بیماریوں کی ایک دوا ہے۔ ذرا اپنی زبان تو دکھاؤ۔

کمار: (منہ کھولنے کی آواز)لو۔

گڈوانی: ذرا اورباہر نکالو۔ میں کھینچ تو نہیں لوں گا۔ آکرو۔

کمار: (زور سے منہ کھولتا ہے)آ۔

گڈوانی: کتنی میلی ہے۔ اُف۔۔۔۔۔۔کتنی میلی ہے۔ تمہیں قبض کی شکایت بھی ہے بس اس دوا سے یوں آرام آجائے گا۔ یوں(چٹکی بجاتا ہے)۔۔۔مادھو لے کر آئے تو اس سے کہنا وہ املی اور آلو بخارے کو آ ب خورے کے اندرڈال کر اس میں پاؤ بھر پانی ڈال دے۔ اس آ ب خورے کو کھلی چھت پر رات بھر اوس میں رہنے دینا۔ صبح اٹھ کر اسے چھان کے پی لینا۔

کمار: آرام آجائے گا؟

گڈوانی: فوراً۔ اچھا میں اب جاتا ہوں۔ کل دوپہر تک تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ کلب میں ملاقات ہوگی۔ گڈبائی۔

کمار: (کھانستا ہے) دروازہ بند کردینا۔

( گڈوانی سیٹی بجاتا ہوا چلا جاتا ہے۔ مادھو اندر داخل ہوتا ہے)

کمار: (کھانستا ہے) مادھو لے آیا۔ سب چیزیں؟

مادھو: جی ہاں صاحب۔۔۔۔۔۔آپ کے دوست رشید صاحب آرہے ہیں۔

کمار: کہاں ہیں؟

مادھو: بس آرہے ہیں صاحب۔۔۔۔۔۔مادھو کہتا ہے ۔

رشید: سناؤ میاں۔ یہ املی اور آلو بخارے کی چٹنی کب سے کھانا شروع کی ہے۔۔۔۔۔۔ تمہیں کھانسی ہو رہی ہے۔ اوپر سے موسم خراب ہے۔ کیوں خود کشی کرنے کا خیال ہے جینے سے تنگ آگئے ہو!

کمار: (کھانستا ہے) ارے بھئی دوا ہے۔ گڈوانی آیا تھا۔ وہی نسخہ بتا گیا ہے(کھانستا ہے) کہتا تھا یوں چٹکیوں میں آرام آجائے گا۔

رشید: آرام چٹکیوں میں آجائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔۔۔۔۔۔ آج اس نسخے کو پیوگے یوں چٹکیوں میں تمہارا گلا اندر سے پھول جائے گا۔ سانس رک جائے گا اور تمہاری ہڈیاں مرگھٹ کے کسی کونے میں جل رہی ہوں گی۔

کمار: جانے دو یار مذاق کو۔۔۔۔۔۔ میری جان نکل رہی ہے اور تمہیں ہنسی سوجھتی ہے۔۔۔۔۔۔کیا سچ مچ دوا ٹھیک نہیں؟(کھانستا ہے)

رشید: لیموں کا رس۔ امچورن۔ املی۔ آلو بخارا۔تیل کے پکوڑے۔ آم کا اچار۔ بیر۔ لال مرچیں۔ یہ سب کوٹ کر کھاؤ اور دوسری دنیا کا ٹکٹ کٹوا لو۔

کمار: اب جانے بھی دو مذاق کو۔۔۔۔۔۔ کیا اس دوا سے آرام نہ آئے گا!

رشید: گڈوانی کے نسخے کامیاب ہونے لگیں تو شہر کے سارے ڈاکٹر اور حکیم ہینگ بیچنا شروع کردیں۔ ارے بابا، کبھی سنا ہے آج تک کسی نے کہ کھانسی کا علاج املی، آلو بخارے سے کیا جائے۔ تمہیں کچھ بھی نہیں ہوا۔ میرا خیال ہے تمہاری چھاتی میں بلغم بیٹھ گیا ہے۔ سو وہ ایک منٹ میں صاف ہوسکتا ہے۔

کمار: بلغم ہے تو سہی۔ سینہ بھاری بھاری معلوم ہوتا ہے۔

رشید: سرمیں درد بھی ہوگا!

کمار: تھوڑا تھوڑا۔۔۔۔۔۔

رشید: ٹھیک۔۔۔۔۔۔اور بدن بھی دُکھتا ہوگا۔

کمار: رات بھر دُکھتا رہا ہے۔

رشید: تو ایسا کرو۔۔۔۔۔۔مادھو۔۔۔

مادھو: جناب!

رشید: تویہاں کھڑا ہے۔ اچھا۔ دیکھ میں تجھے نسخہ بتاتا ہوں۔ بھاگ کے گلی کے نکڑ والے عطّار سے بنوالا۔۔۔۔۔۔ دو پیسے کے عناب، ایک پیسے کا بہیدانہ۔ ایک پیسے کی ملٹھی اور دار چینی ایک پیسہ کا بنفشہ اور خدا تیرا بھلا کرے۔۔۔۔۔۔ ایک پیسہ کا ریشہ خطمی۔۔۔۔۔۔ بس دوڑ کے یہ تمام چیزیں لے آ۔ ایک برتن میں ڈال کر تھوڑے سے پانی میں ان کو خوب جوش دینا اور چھان کر گرم گرم پی لینا پینے کے بعد ناک منہ لپیٹ کر سو جانا۔۔۔۔۔۔ ساری تکلیف دور ہو جائے گی۔

مادھو: میں جاؤں صاحب؟

کمار: جا، مگرجلدی آئیو۔

رشید: اور تمہارے پنڈے میں درد بھی تو ہے۔

کمار: ہاں۔ ہاں، ہے۔

رشید: تو اس کا علاج مالش ہے۔ یہ تمہارے جسم میں خون کی رفتار تیز کرے گی۔ یعنی جتنی خون کی حرکت تیز ہوگی۔ اتنی ہی صحت بڑھے گی۔ خون کی حرکت ٹھیک ہونے پر آکسیجن بہت زیادہ مقدار میں خون کے ذریعے سے جسم میں پہنچے گی۔۔۔۔۔۔ تم سمجھ رہے ہو نا۔۔۔۔۔۔ تو مالش جو ہے۔۔۔۔۔۔ صرف اسی سے خون کی حرکت ٹھیک کی جاسکتی ہے۔ تم کپڑے اُتار دو۔

کمار: سردی ہے۔

رشید: اماں ہٹاؤ اس کمبل کو، تمہیں ٹھیک بھی ہونا ہے کہ نہیں۔ چلو اتاردو بنیان ونیان۔

کمار: مالش کون کرئے گا؟

رشید: تم خود اور کون۔۔۔۔۔۔بس بس یہ چڈی رہنے دو۔ اب مالش کے معنی سُن لو۔ تمہیں سب کچھ سمجھائے دیتا ہوں۔ مالش جسم کو آہستہ آہستہ ہاتھوں سے رگڑنے کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔پہلے آہستہ آہستہ ہتھیلی سے جلد کے ہرایک حصے کو رگڑو۔ پھر زور زور سے ملو۔ ہاتھ، پاؤں، چھاتی،پیٹ،سینہ ران جسم کے ہرحصے پر مالش ہونی چاہیئے۔مالش کرنے سے پہلے ناریل سرسوں،زیتون یا بادام کا تیل،گھی یا ویزلین لگا لینی چاہیئے اس سے بدن کو تکلیف نہیں پہنچے گی۔۔۔۔۔۔ سمجھ گئے نا؟

کمار: سمجھ گیا۔ میرے پاس ویزلین تو ہے۔

رشید: ٹھیک ہے۔ تو بس شروع کردو۔۔۔۔۔۔اللہ کا نام لے کر۔۔۔

کمار: تم جارہے ہو؟

رشید: بھئی معاف کرنامجھے ضروری کام ہے ورنہ میں یہاں ضرور ٹھہرتا۔ خدا حاف٭۔۔۔(چلا جاتا ہے)

کمار: اُف کتنی سردی ہے۔۔۔۔۔۔(کھانستا ہے) بدن کا جوڑ جوڑ سردی سے جم رہا ہے۔

(دروازے پر دستک کی آواز)

کمار: (کھانستا ہے)کون ہے؟

بیدی: بیدی ہے بیدی۔۔۔۔۔۔(دور سے آواز آتی ہے) کوئی جن بھوت نہیں ہے

کمار: تو آجاؤ اندر۔۔۔۔۔۔باہر کھڑے کیاچلّا رہے ہو(کھانستا ہے دروازہ کھلنے کی آواز)

بیدی: یہ کیا سلسلہ ہے۔۔۔۔۔۔ارے۔۔۔۔۔۔تم تو پہلوانی سیکھ رہے ہو کیوں پڑھنا وڑھنا ترک کردیا؟

کمار: میں مررہا ہوں اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے(کھانستا ہے)۔

بیدی: بھئی واہ مرنے کی خوب کہی ڈنٹرپیل رہے ہو اور کہتے ہو مررہا ہوں(ہنستا ہے) آخر بتاؤ تو سہی کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔

کمار: سُن تو لو۔۔۔۔۔۔ابھی رشید آیا تھا اس نے کہا ہے مالش سے آرام آجائیگا۔

بیدی: (ہنستا ہے) کہتا تھا کہ مالش سے آرام آجائے گا(زور زور سے ہنستا ہے)ابے چغد وہ تجھے بنا گیا ہے(ہنستا ہے) عجیب مسخرا ہے اور تم بھی کتنے بدھو ہو کہ اس شریر کی بات مان گئے، تمہیں سچ مچ کھانسی آرہی ہے کیا؟

کمار: تو اور کیا جھوٹ بک رہا ہوں؟(کھانستا ہے)

بیدی: ارے۔۔۔۔۔۔تمہیں تو واقعی کھانسی کی شکایت ہے سینے میں درد تو نہیں کیا؟

کمار: ہے تو سہی۔۔۔۔۔۔رشید کہہ رہا تھا کہ بلغم بیٹھ گیا ہے۔

بیدی: سینے میں درد ہورہا ہے نا؟

کمار: ہاں ہاں

بیدی: تو یہاں ننگ دھڑنگ کیوں بیٹھے ہو۔۔۔۔۔۔کیا مرنے کا خیال ہے۔۔۔۔۔۔ لوگوں کو دھڑا دھڑ نمونیا ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔ اُٹھو اُٹھو میں کہہ رہا ہوں جلدی اُٹھو۔

کمار: اٹھتا ہوں۔

بیدی: جلدی اٹھو!۔۔۔۔۔۔ بستر میں لیٹ جاؤ بس بس یہ کمبل اوڑھ لو۔۔۔۔۔۔ کوئی اور کمبل ہے۔۔۔۔۔۔ہے۔۔۔۔۔۔ یہ بھی اوپر ڈال لو بس بس تمہارا یہ اوورکوٹ۔۔۔۔۔۔یہ بھی اُوپر ڈ ال دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔مادھو۔۔۔۔۔۔مادھو

کمار: باہر گیا ہے۔

بیدی: کہاں بھیج دیا تم نے اسے۔۔۔۔۔۔ آئے تو اس کمرے کو فوراً انگیٹھی سے گرم کراؤ۔۔۔۔۔۔تم بھی نرے احمق ہو۔

کمار: (کھانستا ہے) ارے بھئی کیا ہوا۔

بیدی: ہوا کیا میں وقت پر نہ پہنچتا تو سب کچھ ہوکے رہتا۔۔۔۔۔۔دوسرے دن کا سورج دیکھنا تمہیں نصیب نہ ہوتا جناب کو زکام ہے کھانسی ہے سینے میں درد ہے۔ پھیپھڑوں میں ورم ہوگیا ہے اور علاج کیا ہورہا ہے! ڈنٹر پیلے جارہے ہیں کل تمہارے پیٹ میں درد ہوگا تو ناچنا شروع کردو گے، پرسوں تمہاری آنکھیں دکھیں گی تو کرکٹ کھیل کر اس مرض کا علاج کرو گے!حد ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔کوئی عقلمند آدمی پاس نہ ہوتو اس سے بڑھ کر حماقتیں بھی ہوسکتی ہیں معمولی بات پر تم نے اپنی بے سمجھی سے مرض اتنا بڑھا لیا ہے۔

کمار: (کھانستا ہے) تم اب یہ لیکچر کیوں دے رہے ہو۔

بیدی: لیکچر اس لیئے دے رہا ہوں کہ جناب کو نمونیہ ہونے کے قریب قریب ہے۔

کمار: نمونیہ!

بیدی: جی ہاں نمونیہ اور آپ کے پھیپھڑوں پر سردی کا اثر ہو چکا ہے۔

کمار: (کھانستا ہے) کیا کہہ رہے ہو بیدی!

بیدی: نمونیہ نمونیہ۔۔۔۔۔۔پلیگ تو نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔۔۔سُنو اب اپنی بکواس بند کرو میں اپنے گھر سے رائی کا پلستر بنوا کے بھیجتا ہوں اسے گرم گرم سینے پر لگا دینا فوراً آرام آجائے گا تمہیں زُکام بھی تو ہے۔۔۔۔۔۔ٹھہرو تو۔۔۔۔۔۔میری جیب میں اس کا علاج موجود ہے یہ رہا۔

کمار: کیا ہے(کھانستا ہے)

بیدی: کچھ بھی ہو تمہیں آم کھانے سے غرض ہے نہ کہ پیڑ گننے سے۔ یہ لو اس کی ایک چٹکی بھر کے سونگھ لو۔

کمار: (کھانستا ہے) پتا بھی تو چلے کیا ہے!

بیدی: نسوار ہے۔۔۔۔۔۔نسوار۔۔۔۔۔۔زُکام کے لیئے اکسیر ہے۔۔۔۔۔۔سُونگھ لو۔۔۔۔۔۔سانپ تو نہیں جو تمہیں ڈس لے گا۔

کمار: یہاں تپائی پر رکھ دو میں ابھی سونگھتا ہوں

بیدی: شاباش۔۔۔۔۔۔ تو اچھا۔۔۔۔۔۔میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔مجھے وکیل کے یہاں جانا ہے پرتم اسے یاد سے سُونگھ لینا پلستر میں ابھی بھجوا دیتا ہُوں بے فکررہو کل تک تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔۔۔۔۔۔مادھو۔۔۔۔۔۔آگیا ہے تو؟

مادھو: جی ہاں صاحب

بیدی: کسی بڑی انگیٹھی میں کوئلے سلگا کر اس کمرے میں لے آؤ سمجھے!

مادھو: جی ہاں صاحب

بیدی: اچھا بھئی میں اب چلتا ہوں

مادھو: سرکار میں جوشاندہ لے آیا ہوں عطّار کے پاس ملٹھی نہیں تھی اس لیئے پان والے سے خوشبو کی گولیاں لیتا آیا ہوں

کمار: کتھا اور چونا بھی لے آ

مادھو: بہت اچھا سرکار

کمار: زور سے چلاتا ہے بھاگ جا یہاں سے مادھو بھاگ جا میں دیوانہ ہو جاؤں گا۔

مادھو: سرکار میرا قصور؟

کمار: تو اب زیادہ بک بک نہ کر۔۔۔۔۔۔بھاگ جا یہاں سے۔۔۔۔۔۔نابکار پاجی۔۔۔۔۔۔بیوقوف۔۔۔۔۔۔احمق(زور زور سے کھانستا ہے) اُف اُف کیسے پاگل نوکر سے واسطہ پڑا ہے۔۔۔۔۔۔ کہاں رکھ گیا ہے نسوار۔۔۔۔۔۔یہ رہی۔۔۔۔۔۔ تھوڑی سی سونگھ ہی لوں۔۔۔۔۔۔ چھینک۔۔۔۔۔۔کھانس۔۔۔۔۔۔چھینک)

آتما سنگھ: کمار۔۔۔کمار۔۔۔ وہی ہوا جس کا کھٹکا تھا تم نے اس نالائق بیدی کا کہا مان ہی لیا بھلا وہ جاہل ڈاکٹر کیا جانے۔۔۔۔۔۔میری اور اس کی راستے میں بحث بھی ہوئی! اب بھاگا بھاگا یہاں آرہا ہوں اور یہ دیکھتا ہوں کہ تم ناک میں پاؤ بھر نسوار ٹھونسے بیٹھے ہو۔۔۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں تمہاری عقل کہاں چرنے گئی ہے۔۔۔۔۔۔

(اس مکالمے کے دوران میں کمار کی چھینکوں کی آواز آتی رہتی ہے)

کمار: (چھینکیں) میں تو بہت تنگ آگیا ہُوں۔۔۔۔۔۔صبح سے ایک ہزار علاج بدل چکے ہیں۔۔۔۔۔۔جو آتا ہے۔۔۔۔۔۔حکمت کا نیا پٹارا کھول دیتا ہے(چھینک) میں کیا(چھینک) کروں۔

آتما سنگھ: تم کچھ نہ کرو مجھ پر بھروسہ رکھو میرا باپ اوّل درجے کا حکیم تھا اس کا باپ یعنی میرا دادا بھی حکیم تھا۔۔۔۔۔۔میں علاج معالجے کے متعلق بہت کچھ جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔تمہارے اندر صفرا بڑھ گیا ہے اور تمہیں کوئی بیماری نہیں سینے میں جلن سی محسوس تو نہیں ہوتی!

کمار: (چھینک) ہوتی ہے تھوڑی سی

آتما سنگھ: تھوڑی ہی ہونا چاہیئے آنکھوں کے آگے کبھی کبھی اندھیرا بھی آ جاتا ہوگا!

کمار: صبح تو ایسا معلوم نہیں ہوتا تھا۔

آتما سنگھ: یہ صفرا کی سب سے بڑی نشانی ہے۔۔۔۔۔۔کدو کے ٹکڑے سر پر گھسو۔۔۔۔۔۔بارلی واٹرکاتین چار دن استعمال کرو اور اور۔۔۔۔۔۔بھلا سا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔۔ہاں صندل کا برادہ اور کافور کو پانی میں بھگو کر بار بار سونگھو۔۔۔۔۔۔ کھیرے اور ککڑی کے بیج کھاؤ تووہ بھی اچھے رہیں گے۔

کمار: ٹھیک ہے اب جاؤ میں سب چیزیں منگالوں گا مجھے نیند آرہی ہے۔

آتما سنگھ: میں جاتا ہوں پر تم بھول جاؤ گے میں خود ہی ساری دوائیں لے کر ابھی آتا ہوں۔

کمار: ہاں ہاں یہ اچھا رہے گا۔ دروازہ بھیڑ دینا(دروازہ بھیڑنے کی آواز)۔

کمار: (کھانستا ہے) اگر اب کوئی اورآگیا تو میں یقیناً پاگل ہو جاؤں گا ایک ہی دن کتنے علاج معلوم ہوئے ہیں(کھانستا ہے) فیور مکسچر میں برانڈی اور یوڈی کلون۔ املی ۔۔۔۔۔۔اور آلو بخارا، عناب بہیدانہ اور بنفشہ ملٹھی اور دار چینی کتھا اور چونا۔۔۔۔۔۔خوشبو کی گولیاں۔۔۔۔۔۔ تیل کی مالش۔۔۔۔۔۔ کوئلوں کی انگیٹھی۔۔۔۔۔۔رائی کا پلستر نسوار(چھینک) اور اب کدو کے ٹکڑے، بارلی واٹر صندل کا برادہ اور کافور۔۔۔۔۔۔کھیرے اور ککڑی کے بیج۔۔۔۔۔۔ کوئی اور آیا؟

(دروازے پر دستک کی آواز)

کمار: کون ہے؟۔۔۔۔۔۔چلے آؤ

نرائن: میں آپ کا پڑوسی ہوں مجھے ابھی معلوم ہوا کہ آپ کل سے بیمار پڑے ہیں کیا آپ کی خدمت کرسکتا ہوں۔

کمار: شکریہ۔۔۔۔۔۔تشریف رکھیے۔

نرائن: علاج تو آپ کررہے ہوں گے

کمار: جی ہاں۔۔۔۔۔۔اگر آپ کوکوئی علاج ہے تو فوراً بتا دیجئے۔۔۔۔۔۔ ذرا دیر نہ لگائیے میرے سر میں درد ہے، دانتوں کو پائیوریا ہورہا ہے، گنٹھیا بھی ہے، نمونیہ ہو چکا ہے، پلیگ ہونے والی ہے، ہیضہ کل ہو جائے گا۔

نرائن: پھر تو کیسSerious معلوم ہوتا ہے!

کمار: جی ہاں بہت Serious، ہسٹیریا کے دورے پڑتے ہیں۔

نرائن: ہسٹیریا!

کمار: جی ہاں ہسٹیریا۔۔۔۔۔۔ پسلی میں درد ہے، دانت نکل رہے ہیں، انفلوئنزا کی علامات ظاہر ہورہی ہیں۔۔۔۔۔۔ انتڑیوں میں ورم ہوگیا ہے دق پرسوں تک ہو جائے گا بتائیے کیا آپ اس کا کوئی علاج بتا سکتے ہیں مالیخولیا بھی ہوگیا ہے۔

نرائن: اس میں کیا شک ہے۔۔۔۔۔۔ علاج، میراخیال ہے۔۔۔۔۔۔

کمار: آپ کا خیال ہے کہ ان تمام بیماریوں کا علاج صرف ایک ہے اور وہ یہ کہہ دو چھٹانک دودھ میں سرکہ ڈال کر پیوں، سیب چھیل کر اسے سر پر گھسوں نمک سلیمانی میں چاول کا آٹا ڈال کر سارا دن پھانکتا رہوں۔۔۔۔۔۔ گڑ کے شربت میں حنا کا عطر گھول کر سونگھوں ہیزلین سنو کی مالش کروں، گرم گرم کولتار کا پلستر سینے پر لگاؤں، بکری کی مینگنوں پر کستوری چڑھا کر ببول کی چھال کے عرق کے ساتھ نگلتا رہوں ڈنٹر پیلوں ،مُگدر گُھماؤں ناچوں گاؤں یہی کہنا چاہتے تھے نا آپ! اب آپ تشریف لے جائیے آپ کا بہت بہت شکریہ، مادھو مادھو۔۔۔۔۔۔مادھو

مادھو: جی آیا صاحب

کمار: ان کو عطّار کی دکان پر لے جاؤ اور برانڈی میں پان کے پتے ڈال کر انہیں دو تین گھونٹ پلا دو

نرائن: ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔میں میں۔۔۔۔۔۔

(فیڈ آؤٹ)

مأخذ : کتاب : منٹو کے ڈرامے اشاعت : 1942

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید ڈرامے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here