تین خوبصورت عورتیں

0
202
Urdu Drama Stories
- Advertisement -

(ایک خوبصورت بیڈ روم۔ ساگوان کے دوپلنگ پاس پاس پڑے ہیں ایک پر جمیلہ سو رہی ہے اور خراٹے لے رہی ہے۔ شکیلہ اس کو جگانے کی کوشش میں لگی ہے۔ اس کمرے کی ہر شے خوبصورت ہے۔ تین تصویریں جو لٹک رہی ہیں۔ مغربی آرٹ کے دلفریب نمونے پیش کرتی ہیں کونے میں ڈریسنگ ٹیبل ہے۔ جس پر سنگھار کی بے شمار چیزیں بے ترتیبی سے بکھر رہی ہیں۔ اسٹول پر حسینہ بیٹھی بالوں میں ویوپیدا کرنے کے لیئے کلپ لگا رہی ہے۔ وہ اس کام میں ہمہ تن مشغول ہے۔ ڈریسنگ ٹیبل کے اس طرف دائیں ہاتھ کو ایک دروازہ جس میں سے دوسرے کمرے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اُدھر بھی ایک پلنگ پڑا ہے۔ دوسری ڈریسنگ ٹیبل کا ایک کونا بھی دکھائی دیتا ہے)

شکیلہ جمیلہ۔۔۔جمیلہ (جمیلہ کو جھنجوڑ کر) اُف ہو‘ بھئی کیا نیند پائی ہے۔ مردوں سے شرط باندھ کر سوئی ہے۔ اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتی۔۔۔(تھک ہارکر) پھٹکار پڑے ایسے سونے پر اور بھاڑ میں جائیں ایسے خراٹے۔۔۔ حسینہ تم ہی اسے جگاؤ۔ آج تو ڈھول بھی پیٹے جائیں تو یہ نہیں جاگے گی۔ حسینہ کچھ سُن رہی ہو‘ میں تم سے کیا کہتی ہوں۔

حسینہ: لعنت۔۔۔

شکیلہ: یہ لعنت صبح صبح کس پر پھینکی گئی ہے۔

حسینہ: ساڑھے دس بج گئے ہیں اور یہ ایک کلپ تک بالوں میں نہیں اٹکا۔

- Advertisement -

پورے چوبیس پڑے ۔۔۔آج کیسے بالوں میں ویوز پڑیں گی۔

شکیلہ : میں یہ کہتی ہوں کہ جمیلہ نہیں جاگ رہی۔۔۔ بھئی کس اطمینان سے خراٹے بھرے چلی جارہی ہے اور ہمیں ٹھیک چار بجے وہاں پہنچ جانا چاہیئے۔

حسینہ: مجھے نہ ستاؤ۔۔۔ نہیں جاگتی تو نہ جاگے (اپنے کام میں مشغول رہتی ہے)

شکیلہ جمیلہ: (زور سے ) جمیلہ۔۔۔(اور زور سے) جمیلہ!

جمیلہ: (غنودگی میں) ہوں

شکیلہ: اُٹھو۔

جمیلہ: (کروٹ بدل کر ) کیا ہے؟

شکیلہ: تمہارا سر۔ میں کہتی ہوں‘ اب اٹھ بیٹھو۔ بہت سوچکیں۔ اٹھو۔۔۔ (ملتجیانہ لہجے میں) اُٹھو میری بہن۔۔۔ شاباش۔ اب آنکھیں مل کر بیٹھ جاؤ۔۔۔ اچھی طرح جاگ گئی ہونا؟

جمیلہ: (جمائی لے کر‘ ہاں ہاں۔۔۔ لیکن تم اتنا شور کیوں مچاتی ہو۔ ابھی تو ساڑھے دس ہی بجے ہیں۔

شکیلہ: ٹھیک ہے پر ہمیں چار بجے پارٹی پر بھی تو جانا ہے۔۔۔کیا بھول گئیں۔

جمیلہ: ارے۔۔۔ (اُٹھ کھڑی ہوتی ہے) میں تو بھول ہی گئی تھی۔۔۔ اب کیا ہو گا۔۔۔ میں اتنی جلدی تیار کیسے ہو سکوں گی۔۔۔ تم نے تو بالوں میں کلپ لگا لیئے۔ چہرے پر کریم بھی مل لی اور حسینہ۔۔۔ سمجھو کہ وہ بھی کلپ لگانے سے ابھی فارغ ہو جائے گی۔۔۔ پر میں کیا کروں گی۔۔۔ مجھے ابھی آنکھوں کی اکسرسائز بھی کرنا ہے۔ (آنکھیں مٹکاتی ہے)

شکیلہ: تو سوچتی کیا ہو‘ شروع کر دو یا ابھی تک نیند آنکھوں میں بیٹھی ہوئی ہے( یہ کہہ کر دروازے کے راستے دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے)

جمیلہ: نہیں نہیں۔ میں یوں منٹامنٹی میں سب کام کر لوں گی۔ تم دیکھتی رہو‘ اب میں کیسی پھرتی دکھاتی ہوں۔

(وقفہ۔۔۔ اس دوران میں جمیلہ اپنی آنکھوں کی اکسر سائز شروع کرتی ہے۔ پلنگ ہی پر)

شکیلہ: (آواز دُور سے آتی ہے) حسینہ۔۔۔حسینہ!

حسینہ : کیا ہے؟

شکیلہ: (دوسرے کمرے سے Bathing Saltکا مرتبان تم نے کہاں غارت کر دیا ہے؟

حسینہ: (جھنجھلا کر) جانے میری بلا۔۔۔ ایک تو یہ موئے کلپ آج میرے بالوں میں ٹھیک طور سے ٹکتے ہی نہیں اور ایک یہ ہے کہ ٹرائے جارہی ہے۔۔۔ پڑا ہو گا وہیں غسل خانے کی سِل پر اور کیا میں سلاد پر چھڑک کے کھا گئی ہوں۔

شکیلہ: (دوسرے کمرے سے) اب ٹرٹر نہ کرو۔ ورنہ وہ سناؤں گی کہ یاد ہی رکھو گی۔

۔۔۔ہاں تو کیا کہا تھا تم نے ؟۔۔۔ غسل خانے کی سل پر دھرا ہے؟

حسینہ: ایک بار کہہ تو دیا‘ اب بار بار مجھ سے نہیں کہا جاتا۔

(وقفہ۔۔۔ اس دوران میں جمیلہ اپنی اکسر سائز کرتی رہتی ہے)

جمیلہ: حسینہ ذرا ادھر دیکھو تو۔

حسینہ: خدا کے لیئے مجھے نہ چھیڑو۔۔۔ ان کپوں نے مجھے بہت ستا رکھا ہے۔۔۔ کہو کیا کہتی ہو؟‘‘

جمیلہ: میں سمجھتی ہوں کہ اکسر سائز سے میری آنکھیں اب زیادہ خوبصورت ہو گئی ہیں۔

حسینہ: (مڑ کر) میری طرف دیکھونا؟

جمیلہ: لو۔

حسینہ: ہاں چمک پیدا ہو گئی ہے۔ تم ہر روز اکسر سائز جو کرتی ہو اور میں تو دو دن سے زیادہ کوئی بھی اکسر سائز نہیں کر سکتی۔

جمیلہ: بھئی میں تو وہ تمام اکسر سائزیں کرتی ہوں جو کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔۔۔ تمہارے بال بھی اسی لیئے ملائم نہیں ہوئے کہ تم ہر روز ریشمی کپڑا ان پر گِھسانا بھول جاتی ہو۔

حسینہ: لیکن ہیڈ روجن تو میں باقاعدہ لگاتی ہوں۔۔۔ اس سے بالوں میں تھوڑی سی خشکی تو پیدا ہو گئی ہے پر رنگ بڑا پیارا ہو گیا ہے۔ کل مجھ سے کلثوم کہہ رہی تھی۔ تمہارے یہ بال تو اب ایسے ہو گئے ہیں جیسے سونے کے مہین مہین تار ۔۔۔ ہاں جمیلہ یہ تو بتاؤ۔ میرا بھویں بنانے والا موچنا تم نے کہاں رکھا ہے؟

جمیلہ: اسی میز کے داہنے دراز میں پڑا ہے۔۔۔ اب ایک میرا کام بھی کرو۔ یہ دروازہ کھولو اور اس میں سے بال اُڑانے والا پیڈ نکال کر میری طرف پھینک دو۔۔۔ میری باہوں کے بال کم بخت اگنے بند ہی نہیں ہوتے۔

حسینہ: (دروازہ کھولتی ہے، یہ لو(پیڈپلنگ پر پھینک دیتی ہے) پر اب تو یہ ناکارہ ہو گیا۔

جمیلہ: حسینہ‘ رات کو جو بات ہم نے سوچی تھی صحیح ہے نا؟

حسینہ: میرا تو یہی خیال ہے کہ صحیح ہے۔ آگے خدا بہتر جانتا ہے۔۔۔(وقفہ) کنوارا ہے پچھلے دنوں میٹری میونیل کالموں میں اس کے اشتہار بھی چھپ رہے تھے۔۔۔ آج اس کی بہن کی ایک پارٹی ہے اور شہر کی تمام خوبصورت عورتوں کو مدعو کرتی ہے۔ لسٹ میں نے دیکھی ہے۔ اس میں بیاہی ہوئی صرف چھ ہیں۔ باقی سب کی سب کنواریاں تو اس کا کیا مطلب ہوا؟

جمیلہ: وہی جو ہم نے رات نکالا تھا۔۔۔ لیکن جمیلہ میں یہ سوچتی ہوں‘ اتنا بڑا سوئمبررچانے کی کیا ضرورت تھی۔ کوئی چُن لی ہوتی۔

حسینہ: بات یہ ہے کہ مسٹر ملک فرانس سے چہرہ سازی کا کام سیکھ کر آئے ہیں۔ بیوٹی اکسپرٹ ہیں۔ خدیجہ اپنے بھائی کے لیئے شہر کی خوبصورت ترین لڑکی پسند کرنا چاہتی ہے۔

۔۔۔یوں اس کو بھی سندمل جائے گی۔

جمیلہ: تو ہم تینوں ملک صاحب کی بہن خدیجہ بیگم کی خدمت میں اسی لیئے حاضر ہونگی۔

حسینہ: اب دیکھنا یہ ہے۔ ان کی نظر انتخاب کس پر پڑتی ہے۔شکیلہ آج بہت بن سنور رہی ہے ۔

جمیلہ: بھئی وہ ہے بھی ہم تینوں میں سب سے اچھی۔

شکیلہ: (دوسرے کمرے سے آتی ہے) گھبراؤ نہیں خدیجہ بیگم تم دونوں کو مجھ سے بہت زیادہ نمبر دیں گی۔۔۔ میرا قد نہیں دیکھتی ہو۔۔۔ ملک صاحب تو ماشاء اللہ بڑے قدآور جوان ہیں۔

جمیلہ: لیکن کھری لکیروں والا بلاؤز اوراونچی ایڑی کا شو پہننے سے تو تم خاصی قدآور دکھائی دیتی ہو اور جب سے تم نے ملک صاحب کی لکھی ہوئی کتاب پڑھی ہے اور قد بڑھانے والی مشین منگائی ہے یہ نقص بہت حد تک دُور ہو گیا ہے۔ کیوں حسینہ تم ہی بتاؤ کیا اس کا قد پہلے سے لمبا نہیں ہوا۔

حسینہ: شکیلہ ذرا میرے سامنے کھڑے ہو جاؤ۔

جمیلہ: ذرا دور ہٹ کر

شکیلہ: (مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے) ہٹو بھی۔۔۔

(جمیلہ اچک کر شکیلہ کو پکڑ لیتی ہے۔۔۔ دونوں میں ایک لحظہ کے لیئے کشمکش سی ہوتی ہے)

جمیلہ: تم دیکھ لینا خدیجہ بیگم کی نظر انتخاب تمہی پر پڑے گی۔۔۔ یہ تمہارے لمبے لمبے بال ۔۔۔ گول گول گدرایا ہوا ڈیل۔۔۔ چمپئی رنگ۔۔۔

شکیلہ: جمیلہ اب بکواس بند بھی کرو۔

جمیلہ: اور یہ تمہاری گھنی پلکیں۔

شکیلہ: بھئی ہو گا۔ قسم اللہ کی جمیلہ مجھے تمہارا یہ خیلا پن ایک آنکھ نہیں بھاتا (دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے)

حسینہ: جمیلہ یہ چھیڑ خانی بند کرو۔ شکیلہ تمہیں باتوں میں لگا رکھے گی اور خود تیار ہو جائے گی۔ دیکھتی نہیں ہو پلکیں وغیرہ لگا چکی ہے۔

جمیلہ: اور میں نے ابھی تک باہوں کے بال بھی اچھی طرح صاف نہیں کیئے۔ لاؤ اب یہ موچنا میرے حوالے کرو۔

حسینہ: ذرا ٹھہر جاؤ۔۔۔ (وقفہ)۔۔۔ لیکن پہلے یہ بتاؤ میری بھوؤں میں کوئی نقص تو نہیں رہ گیا۔

جمیلہ: میری طرف دیکھو۔۔۔ بالکل ٹھیک ہیں۔ لو اب موچنا مجھے دو اور دوسرے کمرے میں چلی جاؤ۔

حسینہ: دوسرے کمرے کی ڈریسنگ ٹیبل تو شکیلہ نے روک رکھی ہوگی۔ تم ایسا کرو یہ آئینہ مجھ سے لو اور وہاں سوٹ کیس کے پاس بیٹھ جاؤ۔۔۔ یہ لو آئینہ۔۔۔ میں اب میک اپ کر لوں۔

جمیلہ: اچھا بابا۔۔۔ دیر سے اُٹھنے والوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوا کرتا ہے اچھا کل سے میں بھی جلد جلد اٹھ کر اس ڈریسنگ ٹیبل پر قبضہ کر لیا کروں گی۔

(وقفہ) پلنگ پر سے اُترتی ہے اور سوٹ کیس پر آئینہ رکھ کر فرش پر پاؤں کے بل بیٹھ جاتی ہے۔

شکیلہ: (دوسرے کمرے سے) جمیلہ۔ جمیلہ۔ جمیلہ۔

جمیلہ: اب منہ سے کچھ پھوٹو بھی یا جمیلہ جمیلہ کی رٹ لگائے رکھو گی۔

شکیلہ: دوسرے کمر ے سے میری لپ سٹک کہاں ہے۔

جمیلہ: رات کو تم نے روٹی کے ساتھ کیا کھایا تھا؟

شکیلہ: (آواز دُور سے آتی ہے) مل گئی۔ جمیلہ مل گئی۔

جمیلہ: اب اسی خوسی میں کچھ بانٹو۔۔۔ توبہ ‘ کیا یا د داشت پائی ہے۔ آپ ہی چیزیں رکھتی ہے اور آپ ہی دوسروں سے پوچھتی پھرتی ہے۔۔۔ (وقفہ) حسینہ ‘ میرے روج کی ڈبیہ کہاں ہے؟

حسینہ: دوسروں کے حافظے کا مذاق اڑاتی ہو اور خود ایک دفعہ چیز رکھ کر ہمیشہ کے لیئے بھول جاتی ہو۔

جمیلہ: مجھے یاد آگیا‘ میرے سنگاردان میں پڑی ہے۔

حسینہ: غلط میرے سنگاردان میں ہے۔۔۔ کل تم جب میری لپ اسٹک استعمال کر رہی تھیں تو اپنی روج کی ڈبیہ بھی تم نے اسی میں رکھ دی تھی۔

جمیلہ: اب اس میں میرے حافظے کا کیا قصورہے؟۔۔۔ میں تمہاری لپ اسٹک استعمال کرتی ہوں تو تم بھی تو میرا روج لگاتی ہو۔ تم نے خود اٹھا کر اپنے سنگار دان میں رکھ لیا ہوگا۔۔۔ لیکن چھوڑو اس قصے کو مجھے بھویں بنانے دو۔ ابھی مجھے اور سینکڑوں کام کرنے ہیں۔

(وقفہ)

حسینہ: جمیلہ۔۔۔ حمیدہ کب آرہی ہے؟

جمیلہ: ساڑھے تین بجے یہاں پہنچ جائے گی اور بہت ممکن ہے اس سے پہلے ہی چلی آئے۔۔۔ جن کپڑوں میں گھر بیٹھی ہوگی۔ ان ہی میں سیدھی یہاں چلی آئے گی۔

حسینہ: میں کہتی ہوں۔ آخر اتنی دولت کو یہ لوگ کیا کرتے ہیں بھئی میں نے تو آج تک حمیدہ کو طور طریقے کے کپڑوں میں نہیں دیکھا۔ وہی گل انار دوپٹہ اور وہی سرمئی پاجامہ ۔ جیسے کلیجی پھیپھڑا۔ ساڑھی تو آج تک اس کو کبھی جُڑی ہی نہیں۔

شکیلہ: دوسرے کمرے سے اس کمرے میں آتے ہوئے) بھئی یہ تو نہ کہو کہ اسے ساڑھی نصیب ہی نہیں ہوتی۔ اصل میں حمیدہ کو شلوار قمیص زیادہ بھاتی ہے اور یہ الگ بات ہے کہ یہ پہناوا اب بہت پرانا ہو گیا ہے اور کچھ جچتا نہیں ہے۔

جمیلہ: پہنا وے وہناوے کی بات میں نہیں کہتی۔ میں تو یہ کہتی ہوں کہ جب خدا نے اتنی دولت دی ہے تو چیتھڑے لٹکاکے کیوں رہا جائے۔۔۔ وہ موٹی شلوار قمیص جووہ پہنتی ہے۔ چیتھڑے نہیں تو کیا ہیں۔۔۔ بڑھیا سے بڑھیا ساڑھی وہ پہن سکتی ہے۔ قیمتی سے قیمتی انگوٹھیاں اور آویزے وہ خرید سکتی ہے۔ پر وہ تو ننگی بچی رہنا پسند کرتی ہے۔ یہ بھی کوئی فیشنوں میں فیشن ہے یعنی اگر وہ اسے کوئی فیشن سمجھتی ہے تو اوّل درجے کی بیوقوف ہے۔

حسینہ: میں نے اسے ایک دفعہ دیکھا‘ ماتھے پر بالوں کی بریاں جمائے ہوئے تھی۔ میں نے پوچھا‘ حمیدہ‘ یہ تم نے آج بال کیسے بنائے ہیں ‘ کہنے لگی ۔ میں نگوڑی بال کیا بناؤں گی‘ مجھے تو گھر کے کام کاج ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ میں نے کہایہ ماتھے پر تیرے بریاں کیسی ہیں۔ شرما کر کہنے لگی۔ ایک سہیلی آئی تھی۔ زبردستی یہ دوبریاں نکال گئی ہے۔ یہ کہہ کر اس نے جلدی سے اپنے بالوں پر ہاتھ سے جھاڑو سی پھیر دی۔

شکیلہ: بالوں میں نہ تو کبھی پر اندہ باندھتی ہے۔ چوٹی گوندھی اور آخر میں کھلی چھوڑ دی۔

جمیلہ: میں نے ایک روز اس سے کہا تھا کہ بال کٹوا کیوں نہیں دیتیں۔

حسینہ: کیا کہنے لگی۔

جمیلہ: کہنے لگی‘ نابابا‘ مجھے اپنے بال بڑے پیارے ہیں۔

حسینہ: (طنزیہ انداز کے ساتھ) جبھی دن میں کئی باران کو صاف کرتی ہے!

جمیلہ: خاک!۔۔۔ میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ ہفتے میں ایک بار بھی مشکل سے شیمپو کرتی ہوگی۔

حسینہ: شیمپو؟۔۔۔ جانے بھی دو میں نے تو اسے معمولی صابن سے سردھوتے دیکھا ہے۔

شکیلہ: اب چھوڑو اس قصے کو۔۔۔ جمیلہ میرا ناخنوں کا پالش تم نے پرسوں اترسوں لیا تھا۔ اب کہاں ہے؟

جمیلہ: تم میرا لے لو۔۔۔ اب مجھے یاد نہیں رہا میں نے کہا ں رکھ دیا تھا۔

شکیلہ: نہیں ‘ یہ نہیں ہو سکتا‘ مجھے اپنا پالش چاہیئے۔ تمہارے پالش کا شیڈ میرے روج کے رنگ سے میچ نہیں کرتا۔

جمیلہ: توبہ‘ تمہیں تو ہر بات میں مین میخ نکالنے کی عادت ہے۔۔۔۔ ٹھہرو۔۔۔ پاوڈر کی ڈبیا میں دیکھوں‘ شاید میں نے وہیں رکھا تھا۔۔۔ (وقفہ) اس ڈبیا میں نہیں۔۔۔ وہ ڈبیا دوسرے کمرے میں پڑی ہے۔ وہی جو میں کشمیر سے لائی تھی۔

حسینہ: میری آئی بروپنسل کہاں ہے۔ اتنی دیر سے ڈھونڈ رہی ہوں ملتی ہی نہیں ۔

شکیلہ: یہ لو‘ زیادہ شور نہ مچاؤ۔

حسینہ: شکریہ۔۔۔ ایک تو میری چیزیں استعمال کرتی ہو۔ دوسرے مجھی پر رعب جماتی ہو۔ یہ باتیں کوئی تم سے ہی سیکھے۔

(وقفہ)

جمیلہ: میں نے کہا حسینہ، حمیدہ کے برس کی ہوگی۔

حسینہ: اب کے میٹھا برس شروع ہوا ہے۔

شیکہ: پراٹھارہ برس کی وہ لگتی ‘ معلوم تو ہوتی نہیں۔۔۔ سارا قصور ان موئے ڈھیلے ڈھالے کپڑوں کا ہے جو وہ پہنتی ہے۔

جمیلہ: میں نے ایک روز اس سے کہا۔ حمیدہ تمہاری انگلیاں اتنی خوبصورت ہیں ۔ ناخن کیوں نہیں بڑھا لیتیں میرے کہنے سے ناخن بڑھا کے تو دیکھو پتلی پتلی مخروطی انگلیوں پر لال لال چمکیلے ناخن عجب ہی بہار دیں گے۔۔۔ منہ بناکر کہنے لگی نہ بابا میل پھنس جائے گی اور مجھ سے یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہر وقت ان کی حفاظت ہی میں لگی رہوں اور دوسرا کوئی کام نہ کروں۔۔۔ ایک اور بڑی دلچسپ بات اس نے کہی (ہنستی ہے)!

شکیلہ: کیا ؟

جمیلہ: (ہنس کر) کہنے لگی‘ مجھے تو تمہارے بڑھے ہوئے ناخن دیکھ کر بڑی وحشت ہوتی ہے۔ کسی روز ہنسی مذاق میں تم میرے گالوں میں نہ گاڑدو۔۔۔

ناخن کیا ہیں۔ موئی خون کی پیاسی چھریاں ہیں۔

(تینوں عورتیں خوب ہنستی ہیں)

حسینہ: اتنا پڑھ لکھ کر بھی گنوار ہی رہی ۔

جمیلہ: پرحسینہ ایک بات تم سے کہوں۔۔۔ مزاج کی بڑی اچھی ہے۔ بہت جلد گھل مل جاتی ہے۔

حسینہ: ملک صاحب کی بہن خدیجہ بیگم نے اس کو انوائٹ کیا ہے یا اس کی کوئی سہیلی اسے اپنے ساتھ لے جارہی ہے۔

شکیلہ: نہیں نہیں ملک صاحب کی بہن نے خود اس کو انوائٹ کیا ہے مجھ سے ابھی پرسوں ہی کہہ رہی تھی کہ شکیلہ تمہارا کیا خیال ہے۔ میں جاؤں یا نہ جاؤں بھئی بات یہ ہے کہ مجھے شرم آتی ہے۔ پہلے کبھی ان لوگوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ مجھے تو بڑی الجھن ہوگی تم چلو گی تو میں تمہارے ساتھ چلی چلوں گی۔ تمہارا تو ان کے ہاں بہت آنا جانا ہے۔

جمیلہ: مجھ سے تو کہہ رہی تھی کہ بڑی مشکل سے اس کے اباجی نے اس پارٹی میں جانے کی اجازت دی ہے۔

(باہر دروازے پر دستک کی آواز )

حمیدہ: (آوازدُور سے آتی ہے) میں اندر آجاؤں!

حسینہ : آگئی۔

(حمیدہ دوسرے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑی ہو جاتی ہے۔ شرمائی شرمائی سی)

جمیلہ: آجاؤ حمیدہ۔

شکیلہ: اب آبھی جاؤ باہر دروازے کے ساتھ لگ کے کیا کھڑی ہو۔ ۔۔۔اُف رے انداز یعنی آپ آبھی گئے ہیں اور آتے بھی نہیں۔

حسینہ: بات کیا ہے؟۔۔۔ اب اندر آنے میں عذر کیا ہے؟

جمیلہ: بازو سے پکڑ کر اندر کھینچ نہیں لیتیں۔

(شکیلہ کھینچ کر حمیدہ کو اندر لے آتی ہے)

شکیلہ: کلف وار شلوار پہنے ہے اسی لیئے شرما رہی ہے۔

جمیلہ: تم نے دیکھا ہی کیا ہے۔۔۔ادھر اس کی دو چوٹیوں کی طرف تو دیکھو۔

حسینہ: مجھ سے تو ایک سنبھالنی مشکل ہوتی تھی۔ نہ جانے یہ کس طرح دو دو سنبھال لیتی ہے۔

حمیدہ: (شرمائی ہوئی ہنسّی کے ساتھ) آپا‘ آپ نے اپنے بال خواہ مخواہ کٹا دئیے۔ ایمان سے بڑے اچھے لگتے تھے۔

حسینہ: اب کیا یہ کٹے ہوئے بال برے لگتے ہیں۔

حمیدہ: نہیں۔۔۔پر۔۔۔ نہیں اچھے بھلے ہیں۔

شکیلہ: سامنے پلنگ پر بیٹھ جاؤ ‘ یوں کھڑے کھڑے تھک جاؤگی۔

حمیدہ: میں جلدی چلی آئی کہ یہاں کچھ دیر آپ لوگوں کے ساتھ بھی وقت گزرے۔

حسینہ: میں کہتی ہوں حمیدہ‘ آج تم نے کوئی بھاری جوڑاہی پہن لیا ہوتا۔

یہ سفید بوسکی کی ڈھیلی ڈھالی قمیص۔۔۔سفید دُھلی ہوئی شلوار اور ململ کا دوپٹہ‘ پگلی وہ ساڑھی کیوں نہیں پہنی جو تم نے کل مجھے دکھائی تھی۔

حمیدہ: نہیں آپا‘ زری کا کام اس پر بہت زیادہ چمکتا ہے۔ مجھے ایسی چمک دمک پسند نہیں۔

حسینہ: بھئی ‘ تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ نوج کوئی تم کو صلاح مشورہ دے۔ شکیلہ میرا بالوں کا نٹ کہاں رکھا ہے۔

شکیلہ: میز کے اسی دراز میں ہے جو تم کھولے بیٹھی ہو۔

جمیلہ: حسینہ ‘ شکیلہ لو اب جلدی جلدی کپڑے پہن کر تیار ہو جاؤ۔۔۔ کچھ دیر یہاں تاش کھیلیں گے جب چار بجیں گے تو یہاں سے چل دیں گے۔

حمیدہ: (توقف کے بعد آپا۔۔۔

حسینہ: کیا ہے؟

حمیدہ: آپا ‘ میں آپ کو ایک بات سناؤں۔۔۔ کل خدیجہ بیگم ہمارے یہاں آئیں ۔۔۔ آپا بڑی ہی پیاری ہیں‘ میں آپ سے کیا کہوں کہ وہ کتنے سیلقے والی ہیں۔ دیر تک ہمارے گھر بیٹھی رہیں۔ اپنے بھائی ملک کی باتیں کرتی رہیں۔ امی جان نے انہیں بہت پسند کیا ہے۔

شکیلہ: کیا کرنے آئی تھیں؟

حمیدہ: پارٹی کی دعوت دینے کے لیئے۔

(ٹیلی فون دُور ایک تپائی پر دھرا ہے۔ اس کی گھنٹی بجتی ہے‘ )

حسینہ: شکیلہ‘ دیکھو کون ہے؟

(شکیلہ ٹیلی فون کی طرف جاتی ہے اور چونگا اُٹھاتی ہے‘

شکیلہ: ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ تسلیمات عرض ہے خالہ جان۔۔۔ (حمیدہ کی امّی جان بول رہی ہیں)۔۔۔ جی ہاں‘ میں شکیلہ بول رہی ہوں۔ ارشاد!

۔۔۔حمیدہ۔۔۔حمیدہ میرے پاس بیٹھی ہے۔۔۔ فرمائیے۔۔۔

(لمبا وقفہ) کیا سچ مچ ؟۔۔۔ ایک دفعہ پھر کہیئے۔۔۔ (لمبا وقفہ) اتنی جلدی ؟ پر یہ ہوا کیسے؟۔۔۔ (وقفہ)۔۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے۔۔۔ (وقفہ) میں ابھی اس کو بھیج دیتی ہوں۔۔۔خالہ جان۔۔۔خالہ جان۔۔۔ لیکن کیا حرج ہے کہ وہ بھی چلے۔۔۔ اچھا آپ کی مرضی(ٹیلی فون کا چونگا رکھ دیتی ہے)۔

شکیلہ : بھئی حد ہو گئی۔

حسینہ: کیا حد ہو گئی۔

جمیلہ: کیا کہہ رہی تھیں خالہ جان؟

حمیدہ: کچھ میرے بارے میں کہا؟

حسینہ: نہیں تمہارے بارے میں وہ کیا کہیں گی (ہنستی ہے)

جمیلہ: ارے کچھ منہ سے تو کہو‘ آخر انہوں نے تم سے کیا کہا؟

حمیدہ: آپا سچو سچ بتائیے‘ امی نے آپ سے کیا کہا؟

حسینہ: نہیں بتاتی‘

جمیلہ: تو بھئی مجھے ہی بتا دو۔

شکیلہ: نہیں بتاتی۔

حسینہ: یہ عجب بے تُکاپن ہے کچھ کہو بھی آخر ماجرا کیا ہے جو تم اتنی پُراسرار بننے کی کوشش کر رہی ہو۔

حمیدہ: ضرور امّی جان نے کچھ میری بابت کہا ہوگا؟

شکیلہ: لوفقط اتنا بتائے دیتی ہوں کہ انہوں نے کہا تمہاری ہی بابت ہے۔

حمیدہ: کیا؟

شکیلہ : لو اتنا اور بتائے دیتی ہوں کہ انہوں نے تمہیں پارٹی میں شریک ہونے سے منع کر دیا ہے۔ ابھی تمہیں واپس لینے کے لیئے موٹر آجائے گی۔

حمیدہ: کیوں؟

جمیلہ: اب کہہ بھی دو‘ یہ کیا پہیلیاں بجھوا رہی ہو۔

شکیلہ: اب کوئی پہیلی نہیں رہی۔۔۔لوسُنو۔۔۔ خدیجہ بیگم کے بھائی ملک صاحب کی بات چیت۔۔۔

جمیلہ: بات چیت؟

شکیلہ: حمیدہ سے پکی ہو گئی ہے۔۔۔ لو حمیدہ‘ اب ہمارا منہ میٹھا کرواؤ۔

حسینہ: سچ مچ؟

جمیلہ: اتنی جلدی یہ کیسے ہو گیا بیک وقت؟

حمیدہ: جھوٹ۔۔۔ سفید جھوٹ۔ اس کا اوّل جھوٹ اس کا آخر جھوٹ۔

حسینہ: کل تمہارے ہاں خدیجہ بیگم اتنی دیر تک ملک صاحب کی باتیں کیا یونہی بیکار کرتی رہی تھیں۔۔۔ اور یہ موٹر تمہیں کس لیئے واپس لینے آرہی ہے؟

۔۔۔اب تو لڈو پھوٹ رہے ہوں گے جی ہی جی میں‘ شکیلہ ملک صاحب کی وہ تصویر تو دکھانا جو ان کی کتاب میں چھپی ہے۔ حمیدہ اپنے ہونے والے شوہر کو تو دیکھ لے۔

شکیلہ: (پلنگ سے کتاب اُٹھاتی ہے) حمیدہ‘ لو دیکھو۔۔۔

حمیدہ: (جھنجھلا کر) ہٹاؤ باجی۔۔۔ مجھے ایسے مذاق اچھے نہیں لگتے۔

شکیلہ: ۔۔۔ ایسے مذاق اچھے نہیں لگتے میری بنو کو۔ جب شادی ہو جائے گی تو مہینوں شکل نہیں دکھایا کرے گی۔

(موٹر کے ہارن کی آواز)

حمیدہ: آگ لگے شادی کو۔۔۔ آپ نے تو بس مذاق ہی بنا لیا ہے۔۔۔

شکیلہ: دیکھنا بھاگنے نہ پائے(حمیدہ ہاتھ چھڑا کر بھاگ جاتی ہے)۔۔۔

دوڑ گئی۔۔۔

(موٹر کے ہارن کی آواز)

پردہ

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید ڈرامے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here