لاجونتی: (ایکا ایکی‘بڑے اشتیاق سے)آؤ جھوٹ بولیں!
کشور: ارے۔۔۔تمہیں بیٹھے بیٹھے یہ کیا سوجھی؟
لاجونتی: نہیں ‘نہیں۔۔۔آؤ جھوٹ بولیں!
کشور: پھر وہی۔۔۔جھوٹ بولیں؟۔۔۔کس سے جھوٹ بولیں؟ ۔۔۔او رپھر۔۔۔تم نے مجھے۔۔۔
لاجونتی: (بات کاٹ کر) کوئی جھوٹا سمجھا ہے‘ یہی کہنا چاہتے ہیں نا آپ؟
کشور: ہاں ہاں اور کیا؟
لاجونتی: تو اپنے الفاظ فوراً واپس لے لو۔
کشور: وہ کیوں؟۔۔۔میں نے جھوٹ تھوڑی بولا ہے۔
لاجونتی: بات کو بڑھاؤ نہیں‘ میں اس وقت لڑنے کے Moodمیں نہیں ہوں۔
جو کہہ رہی ہوں سیدھے من سے مان لو۔۔۔آؤ جھوٹ بولیں!
کشور: پر سوال ہے کہ ہم جھوٹ کیوں بولیں۔۔۔میرا دماغ پھرا ہے جو بیٹھے بیٹھے جھوٹ بولنا شروع کر دوں۔
لاجونتی: ایسا کرو کھڑے ہو جاؤ۔۔۔میں بھول ہی گئی تھی۔ تم زیادہ تر کوٹ پہن کر کلب جاتے ہی جھوٹ بولا کرتے ہو۔
کشور: لاجونتی۔۔۔تمہیں آج کیا ہو گیا ہے؟
لاجونتی: میں چاہتی ہوں ہم تم دونوں جھوٹ بولیں۔۔۔آؤ کبھی کبھار میری بات بھی مان لیا کرو۔
کشور: تم اکیلی بولو‘مجھے کیوں ساتھ ملاتی ہو۔
لاجونتی: میں بالکل اناڑی ہوں اور تم اس فن میں خوب طاق ہو۔ میں تمہاری شاگرد بننا چاہتی ہوں۔
کشور: (بڑی سنجیدگی کے ساتھ) لاجونتی۔۔۔میں تم سے ایک بات کہوں۔۔۔؟
لاجونتی: (چونک کر)کہو؟
کشور: (نااُمید ہو کر)کیا کہوں کیسے کہوں؟
لاجونتی: یہ تم میں بڑی بُر ی عادت ہے۔ بات کرتے کرتے بیچ میں رُک کیوں جایا کرتے ہو؟
کشور: تو کہوں؟
لاجونتی: ہاں ہاں کہو۔
کشور: (تھوڑے وقفے کے بعد) نہیں نہیں میں نہیں کہتا۔
لاجونتی: دُور دفع۔۔۔ کیسی بُر ی عادت ہے؟۔۔۔
کشور: تم سمجھوگی میں جھوٹ بول رہا ہوں!
لاجونتی: تم مُنہ سے تو پھوٹو۔۔۔میں تمہارے جھوٹ کو بھی سچ سمجھوں گی۔ لو اب کہہ ڈالو۔
کشور: مجھے تم سے بہت پریم ہے۔۔۔‘
لاجونتی: اب لگے چونچلے بگھارنے۔۔۔چلو بہت کیا تو مان بھی لیا۔۔۔ پروہ چڑیل‘وہ مُوئی حرافہ جس کا فوٹو تم اپنی پاکٹ بُک میں چپکائے پھرتے ہو؟۔۔۔
کشور: (سٹ پٹاتاہے)چڑیل۔۔۔حرافہ۔۔۔پاکٹ بُک۔۔۔کون سی پاکٹ بُک؟
لاجونتی: وہی جو اس وقت سرکار کے کوٹ کے اندر والی جیب میں پڑی ہے اور جس کی طرف ابھی ابھی آپ کا داہنا ہاتھ بے اختیار اُٹھ گیا تھا۔
کشور: (کھسیا نا ہو کر)پاکٹ بُک۔۔۔ہاں پاکٹ بُک۔۔۔میں سمجھا۔۔۔ پاکٹ بک کی بات کر رہی ہو!
لاجونتی: میں پاکٹ بک ہی کی بات کر رہی تھی پر میں پھر اس کا ذکر چھیڑنا نہیں چاہتی۔
کشور: لیکن۔۔۔لیکن۔۔۔ مجھے تمہارے دل سے شبہ بھی تو دُور کرنا ہے۔۔۔پاکٹ بُک میں جو فوٹو ہے نا۔۔۔ وہ ایک۔۔۔
لاجونتی: ایکٹرس کا ہے:کشور:(تھوک نگل کر) ایکٹرس کا ہے۔۔۔
لاجونتی: جس سے تمہارا کل ہی انٹرو ڈکشن ہوا ہے جس کے گھر میں کل تم دفتر سے اُٹھ کر چاء پینے بھی گئے تھے۔۔۔ نرائن صاحب بھی تو آپ کے ساتھ تھے۔
نرائن: بڑی عمر ہے میری اُدھر آپ نے میرا نام لیا اور ادھر میں کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ میں ان کے ساتھ تھا بھابی جان پر قصہ یہ ہے۔۔۔
قصہ یہ ہے کہ مس۔۔۔
لاجونتی: اُرملا دیوی۔
کشور: (حیرت زد ہو کر بے اختیارانہ) ارے؟
نرائن: شکریہ!۔۔۔ تو قصہ یہ ہے کہ مس اُرملا دیوی کے یہاں میرا جانا ایسا ہی تھا۔
لاجونتی: جیسا ایک ایکٹرس کے شیدائی کا ہو سکتا ہے۔
نرائن: (بادل نخواستہ)یقیناًیقینا۔۔۔آپ فوراً ہی سمجھ گئیں دراصل سمجھانے کا بھی سلیقہ ہونا چاہیئے۔۔۔ کشور تم سمجھو گے میں اپنی تعریف کر رہا ہوں پر یہ واقعہ ہے کہ تمہیں بات کرنے کا بالکل ۔۔۔بالکل ڈھنگ نہیں آتا(کھسیانی ہنستی ہنستا ہے) میں نے چند لفظوں ہی میں سارا جھگڑا چکا دیا(ہنستا ہے) چند لفظوں ہی میں۔۔۔ اور چٹکی بجاتے میں۔۔۔(ہنستا ہے)
(پانچ چھ سیکنڈ تک مکمل خاموشی طاری رہتی ہے)۔
نرائن: (خاموشی کا ایکا ایکی احساس کرتے ہوئے)۔۔۔تو قصہ یہ ہے۔۔۔
ارے بھائی کوئی بات تو کر۔۔۔چُپ کیوں ہو گئے ہو؟۔۔۔ارے بھابی جان آپ بھی گُم سُم ہو بیٹھیں۔ معلوم ہوتا ہے منہ میں گھنگنھیاں بھری ہیں۔۔۔
کوئی بات کیجئے!
لاجونتی: (اچانک)آئیے جھوٹ بولیں!
نرائن: (ہکّا بکّا ہو کر)جھوٹ۔۔۔یعنی۔۔۔
کشور: یہ ڈیڑھ گھنٹے سے مجھے اس بات پر مجبور کر رہی ہیں اور پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے پڑ گئی ہیں کہ میں جھوٹ بولوں۔۔۔ اب تم سے بھی یہی کہتی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا۔۔۔‘
لاجونتی: دماغ بہک گیا ہے۔۔۔ کہہ دو کہہ دو‘ کہتے کیوں نہیں ہو۔
کشور: ارے بھئی تم توناحق بال کی کھال نکالتی ہو‘ خود ہی پھاڑتی ہو‘خود ہی رفو کرتی ہو۔
نرائن: ٹھہرو‘ٹھہرو‘اب تم اپنا لکچر شروع نہ کرو۔ مجھے ان سے پُوچھنے تو دو۔ہاں بھابی جان ارشاد!
لاجونتی: میں نے آٖ پ سے کہا تھا کہ آئیے جھوٹ بولیں۔
نرائن: بندہ حاضر ہے۔ پر شرط یہ ہے کہ آپ بھی میرا ساتھ دیں۔
لاجونتی: شروع کیجئے ‘میں ساتھ دوں گی‘لڑ میں لڑ ملاتی جاؤں گی۔
نرائن: لیجئے۔۔۔ اس وقت چار بجے ہیں۔
لاجونتی: یہ تو آپ سچ بول رہے ہیں۔
نرائن: جی ہاں اب اس کے آگے جھوٹ ہی جھوٹ ہو گا۔
لاجونتی: فرمائیے!
نرائن: اس وقت چار بجے ہیں‘ میرے اور کشور کے درمیان ابھی یہ باتیں شروع ہوں گی۔ میں اس سے کہوں گا۔ کہ چلو بھئی چلیں ہاکی کے میچ دیکھنے کا وقت ہو گیا ہے۔اُٹھو اٹھو جلدی کرو‘۔۔۔او روہ آپ کے مُنہ کی طرف دیکھے گا۔ گویا اجازت مانگ رہا۔ اس پر آپ کیا کہیں گی۔
لاجونتی: آپ شوق سے لے جاسکتے ہیں۔ مجھ سے پُوچھ کے جانے کی کیا ضرورت تھی مردوں کو کھیل کود میں ضرور حصہ لینا چاہیئے۔ اس سے صحت اچھی رہتی ہے۔
کشور: کاش یہ میٹھے میٹھے بول سچے ہوتے!!
نرائن: بھئی تم بیچ میں نہ بولو۔۔۔ مجھے او ران کو جھوٹ بولنے دو
کشور!مجھے بھی اس میں شامل کر لو۔ اس طرح وہ نرمی جو آج تک مجھے نصیب نہیں ہوئی شاید مل جائے۔۔۔ گو وہ جھوٹ موٹ ہی کی ہو گی پرنہ ہونے سے تو بہتر ہے۔
لاجونتی: آپ کو روکا کس نے ہے۔۔۔بو لیئے‘پر یہ تو جھوٹ موٹ کا جھوٹ ہے اور آپ ٹھہرے سچا جھوٹ بولنے والے۔ کیا مشکل محسوس نہ ہوگی؟
نرائن: اب یہ سچی باتیں بعد میں شروع کیجئے گا۔ اس وقت ہم سب کے سب جھوٹے ہیں۔
لاجونتی: آپ پھر سے شروع کیجئے۔
نرائن: میرے اور کشور کے درمیان یہ باتیں شروع ہوں گی میں اُس سے کہوں گا
’’چلو بھئی ہاکی کا میچ دیکھنے چلیں۔ اُٹھو اُٹھو جلدی کرو وقت ہو گیا ہے۔‘‘ اور وہ آپ کی طرف دیکھے گا۔ اس پر آپ کیا کہیں گی؟
کشور: ٹھہرو ٹھہرو لاجونتی‘ میں بولتا ہوں۔۔۔ مجھے ایک ایک لفظ یاد ہے۔‘‘ آپ شوق سے جاسکتے ہیں مجھ سے پوچھ کے جانے کی کیا ضرورت تھی‘ مردوں کو کھیل کُود میں ضرور حصہ لینا چاہیئے۔ اس سے صحت اچھی رہتی ہے‘‘۔۔۔ کیوں ٹھیک ہے نا؟
لاجونتی: بالکل۔
نرائن: تو پھر ہم دونوں میچ دیکھنے چلے گئے۔ اور شام کو سات بجے واپس آئے تو آپ نے۔۔۔
لاجونتی: چاء تیار کی آپ دونوں کو پلائی۔۔۔چونکہ یہ تھکے ہوئے تھے۔ اس لیئے میں نے ان کا بدن دبایا‘بوٹ اُتارے، جرابیں اُتاریں‘ ان کے پیروں کی اُنگلیاں چٹخائیں۔ اور۔۔۔
کشور: بس اتنا ہی کافی ہے۔۔۔زیادہ شکر نہ ڈالو
لاجونتی: سب مزا کِر کراہو جائے گا۔
۔۔۔(ٹھنڈی سانس بھر کر)نرائن کیا‘وہ دن بھی آئے گا جب میرے لیئے یہ سچ مچ ایسا سورگ بن جائے گی؟
نرائن: مجھے اس وقت جھوٹ بولنا ہے‘سمجھے۔ ایسی قابل رحم صورت نہ بناؤ۔ تم پر ترس کھا کر اگر میرے منہ سے کوئی سچی بات نکل گئی تو میرا ذمہ نہیں۔۔۔۔سمجھے؟
کشور: سمجھتا ہوں‘ سب سمجھتا ہوں لیکن جسے تم سمجھانے کی کوشش کر رہے ہو‘ بہت چالاک ہے جو بات تمہارے دل میں ہے اس کے ناخنوں میں ہے۔
لاجونتی: اگر سچ بولنا ہو تو آپ خاموش بیٹھے رہیں اپنی للّوپتّوروکے رہیں۔
نرائن: بالکل ٹھیک۔۔۔تو آپ نے ایک پتی درتا استری کی طرح ان کی خدمت کی اور انہوں نے ایک اچھے پتی کی طرح آپ کا شکریہ ادا کیا۔ اور جب اچھی طرح تھکاوٹ دُور ہو گئی۔تو آپ سے کہنے لگے۔‘‘عجب مصیبت ہے‘ ان افسروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ گراؤنڈ میں بڑے صاحب مل گئے کہنے لگے۔ آج چند ضروری کاغذات تیار کرنا ہیں‘ اس لیئے ٹھیک آٹھ بجے میری کوٹھی پر پہنچ جانا۔۔۔۔اب تم ہی بتاؤ سٹینوٹائپسٹ کی زندگی کیا غلاموں سے بدتر نہیں۔۔۔جی چاہتا تھا کہ آج دو گھڑی تمہارے پاس بیٹھوں‘ تم سے وہ غزل سُنوں۔۔۔
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔۔۔مگر۔۔۔!!‘‘
لاجونتی: میں نے ان کو جب اس طرح کڑھتے دیکھا تو کہا۔‘‘ افسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہیئے مُنا کے ا بّا۔۔۔ آپ جائیے‘ میرے لیئے آپٖ اتنی چِنتا نہ کریں۔۔۔میں جانتی ہوں کہ آپ کو بہت کام کرنا پڑتا ہے۔ پر اب ہو کیا سکتا ہے اس کے سوا اور چارہ ہی کیا ہے پرماتما آپ کو شکتی دے۔
کشور: کیا سہانا سپنا ہے۔۔۔ میں اس ہمدردی کے قربان اس شوہر نواز کے خدا۔
نرائن: جی۔۔۔ تو آپ نے ان سے یہ کہا: آپ جایئے پرماتما آپ کو شکتی دے۔۔۔ پرماتما اس کو شکتی دے۔۔۔ ہاں تو یہ کوٹ ووٹ پہن کر باہر نکلے میں ان کے پیچھے چل دیا۔۔۔میرا یہاں بیٹھے رہنا بالکل فضول تھا‘ کیوں بھابی؟
لاجونتی: جی ہاں‘ آپ کو بھی تو کسی کام سے جانا تھا؟
نرائن: میں بھول ہی گیا تھا اچھا ہوا جو آپ نے یاد دلا دیا۔
(گھڑی پانچ بجاتی ہے)
نرائن: میرا خیال ہے کہ اب سچ بولنا چاہیئے۔۔۔ جھوٹ ہم کافی بول چکے۔۔۔ کیا خیال ہے بھابی؟
لاجونتی: میرا شوق تو پورا ہو گیا۔ اگر آپ کا بھی جی بھر گیا ہو تو سچ بولنا شروع کر دیجئے۔پر یہ دھیان رہے کہ اُس میں جھوٹ کی تھوڑی سی بھی ملاوٹ نہ ہو۔
نرائن: ارے توبہ کیجئے صاحب۔۔۔ یہ تو مذاق مذاق میں اور آپ کو خوش کرنے کے لیئے میں نے جھوٹ کے پُل باندھے تھے ورنہ مجھے تو اس سے سخت نفرت ہے۔
لاجونتی: (طنزیہ اندازمیں)جی!
نرائن: آپ یقین نہیں کرتیں، پر آپ کو یاد ہے پچھلے ہفتے جب آپ کے ’’انہوں نے کسی ضروری کام کا بہانہ کر کے رات کو تھیئٹر جانے کی تیاریاں شروع کی تھیں تو میں نے آپ سے صاف صاف بات کہہ دی تھی۔۔۔ اور ابھی ابھی آپ نے جب مجھ سے پوچھا کہ تم اُرملا دیوی فلم ایکٹرس کے یہاں چاء پینے گئے تھے‘ تو میں نے فوراً اقرار کر لیا۔۔۔ دراصل۔۔۔دراصل سچ بولنے سے میں کبھی نہیں گھبرایا۔۔۔ اور دیکھئے اگر آپ کے یہ ابھی ابھی آپ سے کہیں کہ انہیں چھ بجے اپنے بڑے صاحب کی کوٹھی پر کاغذات ٹائپ کرنے جانا ہے‘ تو میں آپ سے فوراً کہہ دُوں گا کہ یہ غلط ہے۔۔۔ بڑے صاحب میرے دوست ہیں اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آج ان کو چھ بجے نہیں بلکہ ساڑھے سات بجے بُلایا گیا ہے اور یہ ڈیڑھ گھنٹہ ادھر اُدھر سیر سپاٹے میں گزارنا چاہتے ہیں۔
لاجونتی: میں نے کب کہا ہے کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ تو میں ذراا نہیں ستا رہی تھی۔ آپ میں اور ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
نرائن: آپ نے کہا تو سچ ہے۔۔۔کشور خفا ہو جائے گا پر کوئی ہرج نہیں۔۔۔ د یکھیئے کل جو انہوں نے مجھے اُس چڑیل اُرملا دیوی کے ہاں جانے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا۔ یہاں تمہیں اپنی بیوی کا ڈرنہ ہو گا پر مجھے ہے اور پھر میں ایسی واہیات عورتوں کے تو پاس تک پھٹکنا نہیں چاہتا۔ مگر اس نے زور دیا اور مجھے جانا ہی پڑا یعنی میں ذرا ٹھٹکا تھا کہ یہ مجھے گھسیٹ کر لے گیا۔
کشور: تم جھوٹ بول رہے ہو۔ سراسر جھوٹ۔ اس بات کا اوّل جھوٹ آخر جھوٹ!
نرائن: جی ہاں جھوٹ بول رہا ہوں‘ مگر پرما تما کے لیئے آپ سچ نہ بولیئے گا۔۔۔!
کشور: پر سوال یہ ہے کہ جھوٹ بولنے سے پہلے میرا کون سا کام بن گیا ہے جو میں اب سچ بولنا چھوڑ دوں‘ یہ دیوی جو میرے پاس بیٹھی ہیں میرے جیون پر تو مارشل لا بن کے رہ گئی ہیں۔۔۔جھوٹ بولوں تو وہ بھی سنسر ہو جاتا ہے اور سچ بولوں تو اُس پر بھی دفعہ ایک سو چوالیس لگ جاتی ہے‘ اب بولو میں کروں تو کیا کروں۔۔۔ میرا تو یہ حال ہے کہ جیسے پنجرے میں پنچھی۔۔۔بس پھڑ پھڑاکے رہ جاتا ہوں۔۔۔ اب اگر اس سے کہوں کہ اُٹھو اور جلدی سے چاء بنا دو کیونکہ مجھے سات بجے بڑے صاحب نے کوٹھی پر بُلایا ہے تو ۔۔۔بس جیسے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا۔ ڈنک پر ڈنک پڑنے لگیں۔۔۔منہ سے اُف کرنے کی بھی تو اجازت نہیں!
نرائن: تم جھوٹ بول رہے ہو۔ بڑے صاحب نے تمہیں ساڑھے سات بجے بُلایا ہے۔۔۔اسی جھوٹ پر تو سارافساد ہے!
کشور: اب تم بھی اس کی طرف داری کرنے لگے۔۔۔سات اور ساڑھے سات میں فرق ہی کیا ہے۔
نرائن: واہ بھئی واہ آدھ گھنٹے کا تمہارے نزدیک کوئی فرق ہی نہیں۔پاؤ گھنٹے میں دُنیا ادھر کی اُدھر ہو سکتی ہے اور تم آدھے گھنٹے کو یونہی بے کار سمجھ رہے ہو۔۔۔۔سُنا بھابی آپ نے۔۔۔وقت میں بھی یہ فضول خرچی کرنے سے بازنہیں آتا۔
لاجونتی: میں آپ کی باتیں بڑے غور سے سُن رہی ہوں۔
نرائن: آپ کی بڑی مہربانی ہے۔۔۔ورنہ بند ہ کس لائق ہے!!
لاجونتی: نرائن صاحب‘ انہیں آج کیا سچ مچ کہیں جانا ہے؟یعنی جانا ہے تو صاف صاف کہہ دیں میں روکنے لگی۔
کشور: جانا ہے بابا جانا ہے‘بڑے صاحب کی کوٹھی پر جانا ہے؟۔۔۔کہیں عیش کرنے نہیں جانا ہے سمجھیں؟
لاجونتی: میں مسٹر نرائن سے بات کر رہی ہوں۔
نرائن: آپ مسٹر نرائن سے بات کر رہی ہیں، تم خاموش رہو۔۔۔ہاں تو بھابھی جان آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ انہیں سچ مچ اپنے بڑے صاحب کی کوٹھی پر جانا ہے‘سات بجے نہیں۔۔۔ساڑھے سات بجے اور انہیں وہاں زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے کا کام ہے یعنی ٹھیک گیارہ بجے انہیں یہاں پہنچ جانا چاہئیے۔
کشور: اوراگر وہاں تین کے بجائے چار گھنٹے صرف ہو گئے تو؟
نرائن: یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔تمہارا بڑا صاحب رات کو ٹھیک گیارہ بجے سو جایا کرتا ہے اگر وہ گیارہ بجے نہ سوئے تو پھر اُسے رات بھر نیند نہیں آتی۔
لاجونتی: تو میں انہیں اجازت دیدوں ؟
نرائن: میں آپ کو مجبور نہیں کرتا‘پر حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔۔۔ کہ آپ کو اجازت دینا ہی پڑے گی۔
لاجونتی: تو چاء پینے کے بعد چلے جائیں۔
کشور: ( خوش ہو کر) تم نے اجازت دے دی!
لاجونتی: کہتی تو ہوں‘جائیے۔۔۔اس میں میری اجازت کی ضرورت ہی کیا تھی۔ آپ کو کام پر جانا ہے‘ کہیں عیش کرنے تھوڑی جانا ہے۔۔۔تو چاء کے ساتھ انڈوں کا حلوہ بنا دوں۔۔۔تھوڑے سے بسکٹ بھی ہیں۔۔۔جانے وہاں آپ کو کب کھانا ملے‘اس لیئے اچھا ہو گا کہ یہاں ہی سے کچھ کھا کے جائیے!
کشور: نہیں نہیں‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں میں خالی چاء پیؤں گا۔
لاجونتی: (نرائن سے)اور آپ؟
نرائن: (چونک کر)میں؟۔۔۔میں سہ پہر کو کچھ نہیں کھایا کرتا۔
لاجونتی: تو خالی چاء رہے۔۔۔ہوں؟
کشور: چاء سے زیادہ ضروری میرا ڈنر سُوٹ ہے‘اُس کو پریس کرنا ہے۔
لاجونتی: ڈنر سوٹ؟
نرائن: ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ وہاں کوٹھی پر دوسرے افسر بھی آئیں گے اور انہیں بھی ان کے ساتھ ڈنر کھانا ہو گا۔۔۔ڈنر سوٹ میں جائیں گے تو اچھا رہے گا۔۔۔ان لوگوں پر اچھا اثر پڑے گا۔
کشور: تم میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو؟
لاجونتی: ڈنر سوٹ؟۔۔۔آپ کا مطلب اُسی سوٹ سے ہے ناجو کالی سرج کا بنا ہوا ہے۔۔۔دُم کٹا سا؟
کشور: ہاں ہاں‘اُسی کو ڈنر سوٹ کہتے ہیں۔ اُسے نکال کر پر یس کر دو۔
لاجونتی: وہی سوٹ جو آپ نے تین برس پہلے بنوایا تھا‘ وہی وہی جس کے استر بھی ایک بار آپ نے مجھ سے رفو کرایا تھا۔
کشور: ہاں‘ہاں‘وہی ۔۔۔وہی ۔۔۔کیوں؟
لاجونتی: جس کے ساتھ تم سفید رنگ کی بُو باندھا کرتے ہو۔
کشور: وہی وہی۔۔۔اُسے ٹرنک میں سے نکالو اور پریس کر دو۔
لاجونتی: آپ نے مجھ سے پہلے کیوں نہیں کہا۔ اب وقت کے وقت آپ کو یاد آیا وہی مثل ہوئی۔۔۔
کشور: پہلے کیوں نہیں کہا۔۔۔پہلے کیا نہیں کہا؟
لاجونتی: اب مجھے کیا معلوم تھا وہ آپ کے کام کا ہے؟
کشور: کیوں۔۔۔کیوں‘اُسے کیا ہوا؟۔۔۔وہ کام کا نہیں تھا۔
لاجونتی: میں نے آج صبح ٹرنک کھولا تو آپ کے سوٹ میں کیڑا لگ رہا تھا‘ سو میں نے اُٹھا کردرزی کودے دیا کہ اُس میں سے مُنے کے دو کوٹ اور دو نیکر بنا دے۔
کشور: مُنے کے دو کوٹ اور دو نیکر بنا دے۔۔۔میرے ڈنر سوٹ میں سے ۔۔۔تم یہ کیا کہہ رہی ہو لاجونتی؟۔۔۔میری اجازت کے بغیر تم میرا سُوٹ مُنے کے دو کوٹ اور دو نیکر بنانے کے لیئے درزی کو کیسے دے سکتی ہو۔
لاجونتی: واہ یہ بھی ایک ہی کہی جناب جب ہر دوسرے تیسرے مہینے میری کسی نہ کسی ساڑھی سے اپنی دھوتی بنا لیا کرتے ہیں۔ تو کیا میں بھی اسی طرح چلایا کرتی ہوں۔ او رجب آپ شیروانی کے نیچے اکثر میرا کُرتہ پہن لیتے ہیں تو میں کچھ نہیں بولتی۔ چُپ رہتی ہوں۔
کشور: تمہاری ساڑھی اور کُرتہ گئے بھاڑ میں ۔۔۔ان سے میرے سُوٹ کا مقابلہ کرتی ہو۔۔۔لاجونتی تمہاری یہ حرکت ناقابلِ برداشت ہے میں نے اس سُوٹ پر پُورے ڈیڑھ سو روپے خرچ کیئے تھے۔
لاجونتی: اور جس ساڑھی سے میں نے آپ کے کمرے کی کھڑکیوں کے پردے بنا دئیے تھے‘ وہ بھی ڈیڑھ سو روپے کی تیاری کی تھی۔۔۔اُس کی زرد دوزی اگر نوچ کر بیچی جاتی جب بھی تیس چالیس روپے کہیں نہیں گئے تھے۔
کشور!وہ ساڑھی دو برس کی پُرانی تھی۔
لاجونتی: اور آپ کا سُوٹ‘تین اور تین اور تین نُوبرس کا پُرانا۔
کشور: میں تم سے بحث کرنا نہیں چاہتا سمجھیں تم بہت ہٹ دھرم ہو گئی ہو۔۔۔ تم کو ڈھیل دے کر میں نے سخت غلطی کی جھک ماری۔۔۔آج تم نے میرے ڈنر سُوٹ سے مُنے کے لیئے دو کوٹ اور دو نیکر بنوانے کا آرڈر دیا ہے کل تم میری موٹر سے اُس کے لیئے جھولا بنوانے کا حکم دے دو گی‘پرسوں یہ گھر کسی کے حوالے کر دوگی۔اترسوں مجھے نیلام پر چڑھا دو گی۔ میں خوب مُفت کا تمہارے ہاتھ لگ گیا ہوں۔ آخر یہ کیا تماشہ ہے۔‘ تم جھوٹ بول رہی ہو میرا سوٹ ویسے کا ویسا موجود ہے جلدی سے نکال کر پریس کر دو۔ مجھے وہاں سات بجے پہنچ جانا چاہیئے۔
نرائن: سات نہیں ۔۔۔ساڑھے سات!
(ٹیلی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوتی ہے)
کشور: لو ‘یہ فون بھی آگیا۔۔۔!
لاجونتی: یہ آپ کا فون نہیں میری کسی سہیلی کا ہے (ٹیلیفون کا چونگا اُٹھانے کی آواز)
ہلو۔۔۔ہلو۔۔۔ہاں‘ہاں۔۔۔۴۵۸۹۶۔۔۔جی ۔۔۔جی۔۔۔میں خیریت سے ہُوں۔ مگر اُن کا مزاج آج کچھ بگاڑ پر ہے۔ چڑ چڑے ہو رہے ہیں۔۔۔
جی ہاں۔۔۔
کشور: کون ہے؟
لاجونتی: میں نے غلطی سے اُن کا ڈنر سُوٹ بیکار سمجھ کر آج درزی کو دے دیا کہ وہ اس سے منے کے دو کوٹ اور دو نیکر بنا دے‘ اس لیئیوہ آج شام کو باہر نہیں نکل سکتے۔۔۔
کیا کہا۔۔۔ نہیں نہیں‘ اگر فرمائیے تو اُن کے بدلے میں حاضر ہو جاؤں۔۔۔بس ۔۔۔تو ادھر سے بھی تسلیم۔(کھٹ سے چونگا رکھنے کی آواز)۔
نرائن: (ایکا ایکی)ارے سوا پانچ ہو گئے۔ مجھے تو ایک ضروری کام سے جانا تھا۔۔۔
بھئی میں چلا۔۔۔اچھا بھابی۔۔۔پھر کبھی حاضر ہوں گا۔۔۔میں چلا۔۔۔
لاجونتی: اجی ٹھہر ئیے تو ۔۔۔ٹھہر ئیے تو۔۔۔
کشور: جانے دو اُسے تم بتاؤ یہ فون پر کون تھا؟۔۔۔ آخر مجھ سے کہتی کیوں نہیں لاجونتی چُھپاتی کیوں ہو کہو بھی کون تھا۔
لاجونتی: آپ کو کیا۔۔۔ کوئی بھی ہو۔۔۔جائیے میں نہیں بتاتی۔۔۔ اور کہے تو بتا دوں پر آپ ۔۔۔
کشور: بگڑ تو نہ جائیے گا؟ تو اگر میں بگڑ ہی گیا تو آپ کا کیا بنا لُوں گا۔۔۔ اچھا کہو بھی کون تھا؟
لاجونتی: لو کہے دیتی ہوں۔۔۔ پر د یکھیئے ہتھّے سے اکھڑ نہ جائیے گا‘وچن دیجیئے۔
کشور: اب کہو بھی کون تھا؟
لاجونتی: میری سہیلی اُرملا دیوی۔۔۔ناراض ہو گئی ہے مجھ سے ڈنر سوٹ کے بجائے اس میں ہی کیڑے پڑتے‘ پر آپ بڑے صاحب کی کوٹھی تو چلے جاتے۔۔۔کیوں چور کیسے پکڑا۔۔۔یہ اُرملا دیوی۔۔۔
کشور: جائے بھاڑ میں۔ اور میں جاؤں چولہے میں۔
نوکر: میم صاحب نے آپ کا ڈنر سوٹ استری کرانے کے لیئے دیاتھا۔ وہ لانڈری سے لایا ہوں۔
کشور: جاؤ‘ دین محمد ٹیلر ماسٹر کو دے آؤ کہ وہ اس میں سے مُنے کے دو کوٹ اور دو نیکر بنا دے
مصنف:سعادت حسن منٹو