افراد
مسعود : (آواز میں اداسی ہو)
خالد :
خلیل : مسعود کے دوست عام نوجوانوں جیسے
ثُریّا : (کم سن لڑکی)
ڈاکیہ :
****
(ٹائپ کرنے کی آواز)
مسعود: (ٹائپ کرتا ہے اور ساتھ ساتھ مضمون پڑھتا جاتا ہے)۔۔۔۔۔۔اس زمانے کی جنگوں کے لیئے سب سے ضروری چیزیں لوہا اور فولاد ہیں(وقفہ)۔۔۔۔۔۔ چونکہ نازیوں کا ارادہ نئی جنگ کا تھا اس لیئے انہوں نے اپنے آپ کو مستغنی کرنے کے لیئے بہت کچھ کیا اور جنگ چھڑنے سے پہلے ان تمام کاموں کا مدعا یہی تھا(وقفہ)۔۔۔۔۔۔جنگی ذخائر کی جمع آوری کے لیئے لوہا اور فولاد کی پیداوار کو بہت ہی زیادہ کیا گیاسنہ انیس سو چوتیس عیسوی میں جرمنی نے8703000 ٹن خام لوہا پیدا کیا اور سنہ انیس سو اڑتیس میں یہ پیداوار322800000 ٹن تک پہنچ گئی۔
(دستک کی آواز)
مسعود: سن انیس سو چوتیس کی پیداوار۔۔۔۔۔۔1198000 ٹن۔۔۔۔۔۔کون ہے۔۔۔۔۔۔(دستک کی آواز)سُن کر پھر۔۔۔۔۔۔لاحول ولا اسے ابھی۔۔۔ چلے آؤ۔۔۔۔۔۔دروازہ کھلا ہے۔
(دروازہ کھلنے کی آواز)
خالد: السلام علیکم۔
مسعود: وعلیکم۔۔۔۔۔۔سن انیس سو چوتیس کی پیداوار کے دگنے سے بھی زیادہ اس عرصے میں فولاد کی پیداوار۔۔۔۔۔۔
خالد: ایک شریف آدمی اتنی دُور سے تمہارے پاس آیا ہے اور تم جانے کیا خرافات بک رہے ہو۔
مسعود: بھائی صاحب میں آپ کی طرح بیکار نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھے اس مضمون کا ترجمہ کرنا ہے۔
خالد: ہوں۔۔۔۔۔۔مضمون کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ اس زمانے کی جنگوں کے لیئے سب سے ضروری چیزیں لوہا اور فولاد ہیں۔۔۔۔۔۔ اور آپ کا دماغ درست کرنے کے لیئے سب سے ضروری چیزیں بادام روغن اور کدو کا تیل ہیں۔۔۔۔۔۔ آپ یہ دونوں تیل منگوائیے اور ہر روز سر میں لگائیے۔ آپ کے دماغ کی یہ ساری خشکی یوں چٹکیوں میں دور ہو جائے گی۔
مسعود: خالد۔۔۔۔۔۔خدا کے لیئے مذاق نہ کرو۔
خالد: تو کیا کروں۔۔۔۔۔۔یہاں تمہارے پاس میں آیا کس لیئے ہوں۔ٹائپ کرنے کے لیئے ایسے اوٹ پٹانگ مضمون لکھنے کے لیئے؟
مسعود: یہ کام بہت ضروری ہے۔
خالد: بالکل غلط۔۔۔۔۔۔ سب سے ضروری چیزیں جنگ میں لوہا اور فولاد ہیں اور اس وقت سب سے ضروری چیزیں عید کارڈ اور تحفے تحائف ہیں۔۔۔۔۔۔ مسعود اب خدا کے لیئے اس ٹائپ رائٹر کو بند کرو۔۔۔۔۔۔کل عید ہے اور مجھے سینکڑوں چیزیں خریدنا ہیں۔چلو آؤ۔باہر چلیں۔
مسعود: باہر جا کے کیا کریں گے!
خالد: بھئی عجب اوندھی کھوپڑ ی کے انسان ہو۔۔۔۔۔۔ باہر جائیں گے۔ ذرا سیر کریں گے۔ چہل پہل دیکھیں گے اور کچھ خرید و فروخت بھی کریں گے۔۔۔۔۔۔ چلو اٹھو۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے دوستوں کو عید کارڈ بھیجنا ہیں۔ کچھ بھیج چکا ہوں لیکن ابھی کچھ باقی رہ گئے ۔۔۔۔۔۔ اور ہاں میں تم سے ایک بات پو چھنا چاہتا ہوں۔
مسعود: پوچھو!
خالد: تم جانتے ہی ہو کہ میرٹھ میں میری بات پکی ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔ میں ایک شرارت کرنا چاہتا ہوں۔
مسعود: کس قسم کی شرارت۔
خالد: میں اس کو ایک عید کارڈ بھیجنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ یعنی اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔ میں اب کوئی غیر تھوڑے ہی ہوں۔۔۔۔۔۔ کیا خیال ہے تمہارا؟۔۔۔۔۔۔میں سمجھتا ہوں اچھی دل لگی رہے گی۔
مسعود: آخر تم لوگوں نے کاغذ کے ان نکمّے پرزوں کو اتنی اہمیت کیوں دے رکھی ہے۔۔۔۔۔۔ عید کارڈ کے بجائے کچھ اور بھیج دو۔
خالد: خدا کی قسم اب تم میں قطعاً شعریت نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ عید کارڈ میں ایک خاص بات ہے بھئی۔۔۔۔۔۔ لوگوں کا سر تو نہیں پھر گیا جو عید پر کارڈ بھیجنا پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ عید کارڈ بڑی خوبصورت چیز ہے۔۔۔۔۔۔ اس سے آدمی کے مذاق کا پتا بھی چل جاتا ہے۔
مسعود: خالد سچ پوچھو تو میں نے کبھی ان باتوں پر غور ہی نہیں کیا اور جب غور کیا ہے تو مجھے ان میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔۔عید کارڈ بھیجنے میں کچھ بچپنا سا ہے اور جو عید کارڈ وصول کرنے پر خوش ہوتے ہیں، میں سمجھتا ہوں وہ تو بالکل بچے ہیں۔۔۔۔۔۔ عید کارڈ کھلونے ہی تو ہیں۔۔۔۔۔۔ کھلونے نہ کہو مصنوعی پھول کہہ لو۔۔۔۔۔۔ آدمی جب دیکھتا ہے کہ وہ اپنی دعائیں یا اپنے دوسرے نازک جذبات دور رہنے والے عزیزوں تک زبانی نہیں پہنچا سکتا تو اس کی انگلیوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ کاغذ کے ٹکڑے تراشنا شروع کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔ان کاغذ کے تر ا شوں میں وہ اپنے جذبات کی تصویریں بناتا ہے۔۔۔۔۔۔گونگی۔ اندھی اور لنگڑی۔۔۔۔۔۔
خالد: کچھ اور بھی کہنا چاہتے ہو؟
مسعود: کہنے تو بہت کچھ کہا جاسکتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔اچھا خالد تمہی بتاؤ کہ ان تصویروں کا کیا مطلب ہوتا ہے جو عید کارڈوں پر بنی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ دو ہاتھ آپس میں ملے ہوئے۔۔۔۔۔۔ریت کا ایک بہت بڑا ٹیلا ہے جس کے پیچھے چاند نکل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ ٹیلے کے پاس ہی ٹیلے سے اونچا ایک اونٹ ہے جس پر کوئی بیٹھا ہے۔ قریب ہی کھجور کا درخت ہے۔۔۔۔۔۔ ایک ٹوکری ہے پھولوں کی اس پر موٹے حروف میں عید مبارک لکھا ہے۔۔۔۔۔۔ایک ٹوکری ہے پھولوں سے بھری ہوئی۔ پاس ہی کھلا ہوا چاقو پڑا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک فرنگی عورت ایک فرنگی مرد پاس پاس بیٹھے ہیں۔ ان کے اوپر ایک شعر چھپا ہے۔
سُنتے ہیں کہ سامانِ عشرت لائی ہے عید
آپ گلے ملتے تو ہم بھی جانتے کہ آئی ہے عید
لاحول ولا۔۔۔۔۔۔
خالد: تم مجھے بہکانا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔ اور کیا۔۔۔۔۔۔ یہ اپنی نرالی منطق کسی اور سے چھانٹنا۔ میں عید کارڈ ضرور خریدوں گا۔ اور تمہیں بھی ایک بھیجوں گا(وقفہ) نہیں تمہیں ہرگز نہیں بھیجوں گا کہ تم منہ ہی دیکھتے رہو۔ یہ تمہاری سزا ہے۔
مسعود: (ہنستا ہے)
خالد: میں چلا۔۔۔۔۔۔تم بڑے شوق سے ٹائپ کرسکتے ہو۔۔۔۔۔۔ جنگ میں دو چیزیں سب سے ضروری ہیں۔لوہا اور فولاد۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہنستا چلا جاتا ہے)
(دروازہ بند کرنے کی آواز)
(توقف کے بعد) جنگ میں لوہا اور فولاد بہت ضروری ہے اور زندگی میں انسان کے لیئے ماں باپ کا ہونا بھی اشد ضروری ہے۔۔۔۔۔۔ ماں باپ نہ ہوں تو کوئی بھائی بہن ہی ہو۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی نہ ہو تو کوئی اور ہی ہو۔۔۔۔۔۔ اکیلا ہونا بہت ہی تکلیف دہ ہے۔
(دستک کی آواز)
مسعود: کون ہے؟
یاسمین: (آواز دُور سے آتی ہے) میں اندر آسکتی ہوں؟
مسعود: آؤ۔۔۔۔۔۔آؤ۔۔۔۔۔۔ یاسمین چلی آؤ۔ دروازہ کھلا ہے۔
(دروازہ کھلنے کی آواز)
مسعود: آجاؤ۔۔۔۔۔۔ اب آبھی جاؤ۔
یاسمین: میں آپ کے کام میں مخل تو نہیں ہوئی؟
مسعود: بالکل نہیں۔
یاسمین: مگر آپ کے ٹائپ رائٹر میں تو کاغذ چڑھا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے ان دو عید کارڈوں پر کچھ لکھوانا ہے۔
مسعود: تو کیا ہوا۔یہ کاغذ ابھی نکل جائے گا۔۔۔۔۔۔لاؤ یہ عید کارڈ مجھے دو(وقفہ) بولو کیا لکھوانا ہے؟
(ٹائپ رائٹر کی گرفت سے کاغذ آزاد کرتا ہے)
مسعود: یہ عید کارڈ تو بڑا۔۔۔۔۔۔بڑا رنگین ہے۔ کسے بھیجو گی؟
یاسمین: بھائی جان کو۔آج بھیجوں گی۔کل مل جائے گا۔۔۔۔۔۔ اس پر ان کا پتہ لکھ دیجئے اور۔۔۔۔۔۔ اور یہاں کونے میں میرا نام۔۔۔۔۔۔ صرف یاسمین لکھیئے گا۔
(ٹائپ میں کاغذ چڑھانے کی آواز)
مسعود: بہت اچھا(ٹائپ کرنے کی آواز) یاسمین۔۔۔۔۔۔(وقفہ) اچھا اب یہ بتاؤ جو تم نے اس کاغذ پر لکھا ہے لفافے پر ٹائپ کردوں۔
یاسمین: جی ہاں۔
مسعود: (ٹائپ کرتے ہوئے) مگر یاسمین تم نے ہاتھ سے کیوں نہیں لکھا؟
یاسمین: ٹائپ کیا ہو تو خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔
مسعود: ٹھیک۔۔۔۔۔۔(کاغذ نکالتا ہے) لو۔ یہ ایک تو ہوگیا۔ دیکھ لو ٹھیک ہے نا؟
یاسمین: بالکل ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ اب دوسرا بھی اسی طرح ٹائپ کردیجئے۔ پتا کاغذ پر لکھا ہوا ہے۔
مسعود: (کاغذ مشین پر چڑھاتا ہے) یہ عید کارڈ بھی خوب ہے۔(ٹائپ کرتا ہے) کتنے میں خریدا؟
یاسمین: جی یہ تو چھ آنے کا ہے اور یہ جو میرے پاس ہے آٹھ آنے کا ہے۔ لفافے سمیت۔
مسعود: (ٹائپ کرتے ہوئے) یہ کس کو بھیجو گی؟
یاسمین: اپنی باجی جان کو۔
مسعود: ٹھیک۔۔۔۔۔۔مگر تم نے اپنی باجی جان کے لیئے دو آنے کم کا عید کارڈ کیوں پسند کیا؟
یاسمین: (ہنستی ہے) اس میں ایک بڑا راز ہے۔
مسعود: (ٹائپ رائٹر کی گرفت سے کاغذ کو آزاد کرتا ہے) مجھے نہ بتاؤ گی؟
یاسمین: جی نہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن ٹھہریئے میں آپ سے ایک بات پوچھتی ہوں۔ اگر آپ کا ایک بھائی ہوتا اور ایک بہن ہوتی تو آپ کس کو اچھا عید کارڈ بھیجتے؟
مسعود: یہ تم نے بڑا ٹیڑھا سوال کیا ہے۔۔۔۔۔۔ نہ میرا کوئی بھائی ہے ۔ نہ میری کوئی بہن ہے۔
یاسمین: جھوٹ۔۔۔۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
مسعود: (ہنستا ہے) ہو کیوں نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔ لو یہ اپنا عید کارڈ لو۔ دیکھ لو کوئی غلطی تو نہیں ہے۔
یاسمین: (توقف کے بعد) جی نہیں۔ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ شکریہ۔۔۔۔۔۔بہت بہت شکریہ۔
مسعود: ٹھہرو۔ ابھی جاؤ نہیں۔ میرے ایک سوال کا جواب دے کر جاؤ۔
یاسمین: کہیئے۔
مسعود: تمہیں اپنے بھائی سے زیادہ محبت ہے یا بہن سے۔
یاسمین: بھائی جان سے۔۔۔۔۔۔ اچھا اب میں چلی۔۔۔
(دروازہ کھولنے اور بند کرنے کی آواز)
مسعود: (ہنستا ہے)۔۔۔۔۔۔ یہاں بھی وہ ضد قائم ہی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔(لمبا وقفہ)۔۔۔۔۔۔(خیالات سے چونک کر)۔۔۔۔۔۔ لیکن میں کس سوچ میں پڑ گیا ہوں۔ کام کیوں نہیں کرتا( ٹائپ رائٹر پر کاغذ چڑھاتا ہے)۔۔۔۔۔۔ ہوں(ٹائپ کرتا ہے) اس کے بالمقابل برطانیہ میں فولاد کی پیداوار8849000 ٹن تھی اور سنہ انیس سو اڑتیس میں صرف 10344000 عید کارڈ تھی۔۔۔۔۔۔ جب نازیوں۔۔۔۔۔۔لاحول ولا۔۔۔۔۔۔ یہ میں نے کیا لکھ دیا ہے۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے) سن انیس سو اڑتیس میں صرف10344000 عید کارڈ تھی۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے)۔۔۔۔۔۔ یہ عید کارڈ اچھا میرے دماغ پر سوار ہوا ہے۔
(دروازہ کھلتا ہے)
خلیل: آپ کے دماغ پر کیا سوار ہے۔ بھوت تو عام طور پر آپ کے دماغ پر سوار رہتا ہے۔آج کوئی نئی چیز تو سوار نہیں ہوگئی۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا مسعود صاحب آداب عرض کرتا ہوں۔
مسعود: میں بھی تسلیم بجا لاتا ہوں۔۔۔۔۔۔تشریف رکھےئ ۔۔۔۔۔۔ کہیئے کیسے آنا ہوا۔
خلیل: آج ادھر عید کارڈ لینے آیا تھا سو تمہارے پاس بھی آگیا۔
مسعود: عید کارڈ؟
خلیل: جی ہاں۔عید کارڈ۔۔۔۔۔۔ کیوں۔آپ میری طرف یوں گھور گھور کے کیوں دیکھنے لگے؟
مسعود: تو آپ عید کارڈ لینے آئے تھے۔
خلیل: جی عید کارڈ لینے آیا تھا۔
مسعود: (ہنستا ہے) میں سمجھا آپ عید کارڈ لینے آئے تھے۔
(دونوں خوب ہنستے ہیں)
خلیل: اُف توبہ۔۔۔۔۔۔ لو دیکھو۔۔۔۔۔۔ یہ عید کارڈ لایا ہوں۔
مسعود: ارے۔۔۔۔۔۔ یہ تو بیشمار ہیں۔۔۔۔۔۔ اتنے کیا کرو گے؟
خلیل: کیا کروں گا!بھیجوں گا۔۔۔۔۔۔ پندرہ تو رشتہ داروں میں بٹ جائیں گے دس دوستوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔ایک دو فالتو ہیں۔ وہ بھی کہیں نہ کہیں چلے ہی جائیں گے۔
مسعود: یہ بھی اچھا خاصا بیوپار ہے۔۔۔۔۔۔ تمہیں بھی تو ان تمام لوگوں کی طرف سے ایسے ہی رنگ برنگے عید کارڈ آئیں گے۔
خلیل: آئیں نہ آئیں مجھے اس کا کوئی خیال نہیں۔۔۔۔۔۔ صرف ایک آدمی کا عید کارڈ آجائے تو سمجھو عید ہوگئی۔
مسعود: کس کا؟
خلیل: یہ نہ پوچھو۔۔۔۔۔۔اتنا بتائے دیتا ہوں کہ وہ عید کے خوبصورت تصوّر سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔
مسعود: خلیل۔۔۔۔۔۔ تم بھی محبت کرنے لگے!
خلیل: یہ۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔۔یہ کیسا سوال ہے۔
مسعود: تو ہٹاؤ اسے۔ یہ بتاؤ کیا وہ واقعی خوبصورت ہے۔
خلیل: اگر اس کی خوبصورتی کے متعلق جھوٹ بولا جائے تو وہ اتنا خوبصورت نہیں ہوگا جتنا کہ ا س کا ایک جلوہ حقیقت میں ہے۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں اس کی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ٹھہرو۔ میں تمہیں وہ عید کارڈ دکھاتا ہوں جو میں خاص اس کے لیئے لایا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔لیکن تم ہاتھ نہیں لگاؤ اسے۔ دُور سے دیکھو۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں اس جھیل کی طرح پراسرار ہیں۔۔۔۔۔۔ بالکل اسی طرح۔۔۔۔۔۔ نیلے نیلے اونگھتے ہوئے سایوں کا ایک جال سا ۔۔۔۔۔۔یہ دیکھو میں نے یہاں لکھ بھی دیا ہے۔ تم خود پڑھو۔
مسعود: تیری ان پرُاسرار جھیلوں کے نام جن پر تیری پلکوں کے سائے ہمیشہ جھکے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ خلیل بخدا تم اب شاعر ہوگئے ہو۔ یعنی اگر تم چاہو تو بے قافیہ نظموں کا ایک دیوان بڑی آسانی کے ساتھ چھپوا سکتے ہو۔
خلیل: مسعود۔۔۔۔۔۔تم مذاق کرتے ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ اس لڑکی نے میری زندگی کو ردیف اور قا فیے کی قید سے بالکل آزاد کردیا ہے۔۔۔۔۔۔ محبت۔۔۔۔۔۔محبت تم کیا جانو کہ محبت اجتہاد کا دوسرا نام ہے۔۔۔۔۔۔لاؤ یہ تمام عید کارڈ میرے حوالے کرو۔
مسعود: بس چلے۔
خلیل: ہاں بھئی اب جاؤں گا۔ یہ سب عید کارڈ پوسٹ کرنے ہیں۔
مسعود: لو یہ سنبھال لو۔۔۔۔۔۔دو میں نے رکھ لیئے ہیں۔
خلیل: اور لے لو۔
مسعود: نہیں دو کافی ہیں۔
خلیل: کیا تم بھی کسی اچھی آنکھوں والی کو۔۔۔۔۔۔
مسعود: (ہنستا ہے)ہاں۔۔۔۔۔۔کچھ ایسی ہی بات ہے۔
خلیل: اچھا بھئی۔خدا حاف٭۔۔۔۔۔۔انشاء اللہ کل ملاقات ہوگی۔
(دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز)
مسعود: تو یہ بات ہے۔۔۔۔۔۔(وقفہ) عید کارڈ بُری چیز نہیں۔۔۔۔۔۔ یعنی جب دو مفت مل گئے ہیں تو کیا برا ہے۔ بھیج کیوں نہ دیں۔۔۔۔۔۔(وقفہ) ایک تو اس کو بھیج دینا چاہیئے۔۔۔۔۔۔ اماں اسی کو۔۔۔۔۔۔ اتنی جلدی نام بھی بھول گئے ۔۔۔۔۔۔اسی کو۔۔۔۔۔۔اپنی۔۔۔۔۔۔اپنی زہرہ کو۔۔۔۔۔۔ہاں ہاں زہرہ ہی کو۔۔۔۔۔۔(وقفہ)پیاری زہرہ کو ملے۔۔۔۔۔۔از طرف۔۔۔۔۔۔ مسعود حسن مگن لال بلڈنگ سرکلر روڈ دہلی۔۔۔۔۔۔ چلیئے۔۔۔۔۔۔کیا یاد کرئے گی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(میوزک کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا۔ اس کے بعد دوسرا منظر شروع ہو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(دروازے پر دستک کی آواز)
مسعود: (اندر سے بولتا ہے)کون ہے؟
ڈاکیہ: حضور ڈاکیہ۔
مسعود: (دروازہ کھول کر) او تم ہو۔کہو کوئی چٹھی وٹھی لائے۔
ڈاکیہ: جی ہاں۔ خالی ہاتھ انعام لینے کے لیئے کیسے آسکتا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ لیجئے۔۔۔۔۔۔
مسعود: (خوش ہو کر) تمہیں ڈبل انعام ملے گا۔۔۔۔۔۔یہ عید کارڈ ہماری زہرہ نے بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔لو یہ ایک روپے کا نوٹ۔
ڈاکیہ: شکریہ۔۔۔۔۔۔ٹھہریئے مسعود صاحب آپ کی ایک اور چٹھی بھی ہے۔۔۔۔۔۔میں نکالتا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ رہی۔۔۔۔۔۔لفافے پر آپ نے کوئی ایڈریس ہی نہیں لکھا۔۔۔۔۔۔ زہرہ کو ملے۔۔۔۔۔۔نیچے اپنا پتا بھی لکھا ہے۔لیکن۔۔۔لفافہ۔۔۔۔۔۔
مسعود: (گھبرا کر) ہاں ہاں۔۔۔۔۔۔ وہ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ لاؤ یہ مجھے دو۔۔۔۔۔۔اچھا تو۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے(دروازہ بند کردیتا ہے)۔
ڈاکیہ: (ہنستا ہے)۔۔۔ یہ بابو لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔لڑکا بھی آپ اور لڑکی بھی آپ۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے)۔۔۔۔۔۔فیڈ آؤٹ۔
مأخذ : کتاب : منٹو کے ڈرامے اشاعت : 1942
مصنف:سعادت حسن منٹو