چاندنی کا رقص دریا پر نہیں دیکھا گیا
آپ یاد آئے تو یہ منظر نہیں دیکھا گیا
آپ کے جاتے ہی ہم کو لگ گئی آوارگی
آپ کے جاتے ہی ہم سے گھر نہیں دیکھا گیا
اپنی ساری کج کلاہی داستاں ہو کر رہی
عشق جب مذہب کیا تو سر نہیں دیکھا گیا
پھول کو مٹی میں ملتا دیکھ کر مٹی ہوئے
ہم سے کوئی پھول مٹی پر نہیں دیکھا گیا
جسم کے اندر سفر میں روح تک پہنچے مگر
روح کے باہر رہے اندر نہیں دیکھا گیا
جس گدا نے آپ کے در پر صدا دی ایک بار
اس گدا کو پھر کسی در پر نہیں دیکھا گیا
آپ کو پتھر لگے جاویدؔ جی دیکھا ہے یہ
آپ کے ہاتھوں میں گو پتھر نہیں دیکھا گیا
شاعر:عبد اللہ جاوید