اپنی آنکھوں کو امیدوں سے سجائے رکھنا
جلتی راتوں میں کوئی خواب بچائے رکھنا
لوٹ کر آؤں گا پھر گاؤں تمہارے اک دن
اپنے دروازے پہ اک دیپ جلائے رکھنا
اجنبی جان کے پتھر نہ سواگت کو بڑھیں
اپنی گلیوں کو مرا نام بتائے رکھنا
سونے ساون میں ستائے گی بہت پروائی
درد کو دل میں مگر اپنے دبائے رکھنا
ہجر کی تیرہ شبی ٹھہری ہے تقدیر وصال
میری یادوں کے ستاروں کو جگائے رکھنا
خوش نقابی کا بھرم ٹوٹنے پائے نہ کمالؔ
غم کو ہونٹوں کے تبسم میں چھپائے رکھنا
شاعر:عبد اللہ کمال