سر میں سودا بھی وہی کوچۂ قاتل بھی وہی
رقص بسمل بھی وہی شور سلاسل بھی وہی
بات جب ہے کہ ہر اک پھول کو یکساں سمجھو
سب کا آمیزہ وہی آب وہی گل بھی وہی
ڈوب جاتا ہے جہاں ڈوبنا ہوتا ہے جسے
ورنہ پیراک کو دریا وہی ساحل بھی وہی
دیکھنا چاہو تو زخموں کا چراغاں ہر سمت
محفل غیر وہی انجمن دل بھی وہی
کیسے ممکن ہے کہ قاتل ہی مسیحا ہو جائے
اس کی نیت بھی وہی دعوئ باطل بھی وہی
تم سمجھتے نہیں انورؔ تو خطا کس کی ہے
راہ ہے روز ازل سے وہی منزل بھی وہی
شاعر:ظفر انور