قصیدے لے کے سارے شوکت دربار تک آئے
ہمیں دو چار تھے جو حلقۂ انکار تک آئے
وہ تپتی دھوپ سے جب سایۂ دیوار تک آئے
تو جاتی دھوپ کے منظر لب اظہار تک آئے
وہ جس کو دیکھنے اک بھیڑ امڈی تھی سر مقتل
اسی کی دید کو ہم بھی ستون دار تک آئے
طرب زادوں کی راتیں حسن سے آباد رہتی تھیں
سخن زادے تو بس ذکر لب و رخسار تک آئے
زمیں کے ہاتھ پر ہے آسماں یہ کیا مقام آیا
یہ کس امکاں بھری دنیا کے ہم آثار تک آئے
انا کے گنبدوں میں جن کا فن گونجا کیا برسوں
ہنر ان کے بھی بکنے رونق بازار تک آئے
شاعر:زبیر رضوی