روز بدلی ہوئی دنیا کی فضا دیکھتے ہیں
آج کس سمت میں چلتی ہے ہوا دیکھتے ہیں
جو بھی ہوتا ہے وہ ہوتا ہے امیدوں کے خلاف
دل میں کیا سوچتے ہیں آنکھ سے کیا دیکھتے ہیں
پہلے سنتے تھے کہیں قتل ہوا ہے کوئی
اب تو یہ کھیل شب و روز کھلا دیکھتے ہیں
ہم کہیں آگ بجھانے کے لیے نکلے تھے
واپس آئے ہیں تو گھر اپنا جلا دیکھتے ہیں
قتل و خوں بند ہوا رقص جنوں ختم ہوا
شہر میں کون مرا کون جیا دیکھتے ہیں
مدعا خود انہیں معلوم ہے پلکیں نم رکھ
وہ طلب گار کا انداز دعا دیکھتے ہیں
اس کے انجام سے دل کانپنے لگتا ہے ظفرؔ
جب سر شام کوئی پھول کھلا دیکھتے ہیں
مأخذ : ٹک ٹک دیدم
شاعر:ظفر نسیمی