ہر رنج قبول کر رہا ہوں
زخموں کو میں پھول کر رہا ہوں
اک پل کی یہ زندگی ہے میری
لیکن اسے طول کر رہا ہوں
جس جس کو عطا کیا خدا نے
وہ درد وصول کر رہا ہوں
جو حرف فعل سے روٹھ جائے
اس کو میں فعول کر رہا ہوں
لوہے کی کھڑی ہوئی ہے دیوار
اور میں اسے دھول کر رہا ہوں
پہچان کے اپنے آپ کو بھی
پھر بھی کہیں بھول کر رہا ہوں
اپنوں کے تعلقات سارے
غیروں سے وصول کر رہا ہوں
ہر سمت ہوا چلی کچھ ایسی
شیشم کو ببول کر رہا ہوں
ہر گام پہ ظلمتوں میں رکھ دے
اس کو بھی رسول کر رہا ہوں
میں باد صبا پہ رکھ کے پہرے
کلیوں کو ملول کر رہا ہوں
جس سے ہے سب انتشار برپا
اس کو ہی اصول کر رہا ہوں
حاصل نہ ہو کچھ ظفرؔ مجھے تو
سب کام فضول کر رہا ہوں
شاعر:ظفر ہاشمی