حکیم محمود خان مرحوم کے دیوان خانے کے متصل یہ جو مسجد کے عقب میں ایک مکان ہے، مرزا غالب کا ہے۔ اسی کی نسبت آپ نے ایک دفعہ کہا تھا۔
مسجد کی زیر سایہ ایک گھر بنا لیا ہے
یہ بندۂ کمینہ ہمسایۂ خُدا کا ہے
آئیے! ہم یہاں آپ کو دیوان خانے میں لے چلیں۔ کوئی حرج نہیں، رات ہے تو کیا، مرزا صاحب کے یہاں یقیناً اس وقت بھی رونق ہوگی۔۔۔۔۔۔ رونق تو خیر اتنی نہیں لیکن منشی شونرائن موجود ہیں۔
(مرزا صاحب سے کاغذ لیتے ہوئے)
منشی شونرائن: تو کیا سچ مچ یہ غزل آپ کی نہیں؟
غالب: (بھنّا کر) بھائی حاشاثم حاشا اگر یہ غزل میری ہو۔ اسد اور لینے کے دینے پڑے ہیں۔ لاحول والا اس غریب کو میں کچھ کیوں کہوں لیکن اگر یہ غزل میری ہو تو مجھ پر ہزار لعنت۔ اس سے آگے ایک شخص نے یہ مطلع میرے سامنے پڑھا اور کہا قبلہ آپ نے کیا خوب کہا ہے۔
اسد اس جفا پہ بتوں سے وفا کی
میرے شیر شاباش رحمت خدا کی
میں نے اُس سے کہا۔ اگر یہ میرا مطلع ہو تو مجھ پر لعنت۔ بات یہ ہے کہ ایک شخص میر مانی اسد ہو گزرے ہیں اور یہ غزل انہی کے شاندار کلام کا نمونہ ہے۔
منشی شونرائن تم طرز تحریر پر بھی غور نہیں کرتے۔
منشی شونرائن: (کاغذ تہہ کرکے جیب میں رکھتے ہوئے) مجھے افسوس ہے( مرزا غالب کا نوکر کلّو داخل ہوتا ہے)
کلّو: حضور منشی غلام رسول صاحب آئے ہیں۔
غالب: تشریف لائیں۔
(کلّو کمرے سے باہر جاتا ہے اور منشی غلام رسول داخل ہوتے ہیں)
غلام رسول: تسلیم بجا لاتا ہوں مرزا صاحب۔
غالب: تسلیم، کہئے کیوں کر آنا ہوا منشی صاحب۔
غلام رسول: مسٹر ٹامسن صاحب سیکرٹری بہادر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ ان کا خیال ہے کہ جناب کو کالج میں فارسی کا استاد مقرر کریں۔
منشی شونرائن: مبارک ہو مرزا صاحب۔
غالب: بھئی پوری بات تو سُن لو۔۔۔۔۔۔ ہاں تو اورکیا کہا منشی صاحب؟
غلام رسول: اُنہوں نے کل دس بجے آپ کو بلایا ہے۔
غالب: بہتر، میری طرف سے بہت بہت سلام عرض کیجئے گا اور کہیئیگاکہ زہے نصیب آپ نے مجھے منتخب فرمایا ہے۔۔۔۔۔۔میرا شکریہ قبول ہو۔
غلام رسول: تو میں سیکرٹری صاحب بہادر کی کوٹھی کے بائیں باغ میں حاضر رہوں گا اور جونہی آپ تشریف لائیے گا۔ فوراً آپ کی تشریف آوری کی خبر کردوں گا۔
غالب: آپ کی نوازش ہے، میں وقت پر حاضر ہو جاؤں گا۔
غلام رسول: اچھا تو میں اجازت چاہتا ہوں۔
(منشی غلام رسول کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں)
منشی شونرائن: (مسکراتے ہوئے) اب تو اجازت ہے مبارک باد دینے کی۔
غالب: (مسکرا کر اُٹھتے ہوئے) نہیں۔ سب سے پہلے مجھے اپنی بیگم کی مبارک باد لینے دو۔
مرزا غالب زنان خانے میں خوش خوش داخل ہوتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ امراؤ بیگم بیٹھی وضو کررہی ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی انہوں نے منہ سُجا لیا اور کہنا شروع کیا۔
امراؤ بیگم: آج دو روز سے کہہ رہی ہوں کہ ایک وقت میرے پاس بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے میری چند باتیں سُن لیجئے۔ پر آپ کو فرصت کہاں۔
غالب: (پاس ہی چوکی پربیٹھ کر) بیگم صاحبہ! مجھے معلوم ہے کہ آپ مہین مہین چٹکیاں لے کر نصیحتیں یا فضیحتیں کیجئے گا۔ خیر فرمائیے۔
امراؤ بیگم: (چڑ کر) دیکھئے پھر آپ نے طعن طروز کی باتیں شروع کردیں۔
غالب: (زیرِ لب مسکراتے ہوئے) اچھا جو آپ کہنا چاہتی ہیں کہیئے۔
امراؤ بیگم: میں کہتی ہوں کہ کب تک گھر کا اثاثہ بیچ کر گزر ان ہوگی۔ کس طرح یہ بیل منڈے چڑھے گی۔ قرض کس صورت سے ادا ہوگا۔ اے قرض جائے جہنم میں۔ روز مرّہ کے مصارف کس طرح پورے ہوں گے۔ اب تو لتیّ بدن پر جھولنے کا زمانہ آگیا ہے۔
غالب: (پُراسرار طریقے پر مسکراتے ہوئے) آپ گھبرائیے مت۔ خُدا نے سن لی ہے۔(چوکی پر سے اُٹھ کر کھڑے ہوتے ہیں)
امراؤ بیگم: کیا سُن لی ہے خدا نے؟
غالب: (فاتحانہ انداز میں) آپ کے وظیفوں کی برکت سے مسٹر ٹامسن بہادر نے مجھے بلایا ہے۔ کالج میں فارسی زبان کا اُستاد مقرر کرنا چاہا ہے اور یقینی طور پر میری ہی اک ایسی ذات ہے جو اس عہدے کے لائق ہے۔
امراؤ بیگم: اپنے مُنہ میاں مٹھو۔
غالب: جی سُن لیجئے۔ کم سے کم۔ کم سے کم۔ کچھ نہیں تو سو ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار تو میرا مقرر ہو ہی جائے گا لیجیئے اب خوش ہوئیں۔
امراؤ بیگم: (لوٹا لے کر اُٹھتے ہوئے) ہوگئی۔
غالب: تو ذرا ہنس لیجیئے۔
امراؤ بیگم: چوچلے نہ بگھاریئے۔
غالب: (خوش طبعی سے) نہیں میری جان کی قسم ہنسو تاکہ ذرا مجھے تمہاری طرف سے اطمینان ہو۔
امراؤ بیگم: (کِھل کھلا کر ہنس پڑتی ہے)
غالب: (اطمینان کے ساتھ) خدا میری بیگم کو ہنستا ہی رکھے، بھئی امراؤبیگم تم غالب کی روح ہو۔
امراؤ بیگم: اب اپنی شاعری رہنے دیجئے اور صاحبِ سکتر بہادر کے ہاں جانے کی تیاری کیجئے۔
دوسرے روز صبح کو مرزا غالب مسٹر ٹاسن سے ملاقات کرنے کے لیئے تیار ہونے لگے۔
غالب: (مضطرب حالت میں) کیوں میاں مداری یہ کلّو داروغہ کہاں گئے؟
مداری: جی ابھی تو یہیں تھے حضور۔ شاید معظم علی عطر فروش کی دکان پر بیٹھے ہوں گے۔
غالب: ذرا بُلانا مجھے سکتر بہادر کے ہاں جانا ہے۔ مرے درباری کپڑے نکال دیں۔
مداری: (قدموں کی چاپ سن کر) لیجئے کلّو داروغہ آگئے۔
(کلّو داخل ہوتا ہے)
کلّو: آپ نے مجھے یاد فرمایا۔
غالب: بھئی کلّو تم کہاں دن بھر غائب رہتے ہو؟
کلّو: کیا حکم ہے سرکار؟
غالب: ذرا میرے درباری کپڑے نکالو، مجھے آج دس بجے سیکرٹری صاحب بہادر کے ہاں جانا ہے۔
کلّو: (جاکر پلٹتے ہوئے) کیوں سرکار۔ وہ شالی چوغہ اور دستار ضرور نکالی جائے گی۔ جوڑا کون سا نکالا جائے گا؟
غالب: وہ ٹانڈے کی جامدانی کا انگرکھایا وہ ریشمی دھاری اور قلمکار اور جوتا وہی سلیم شاہی جو آج آٹھ روز ہوئے میں نے خریدا ہے۔۔۔۔۔۔ ہاں ادراک شالی رومال بھی نکال لینا۔
درباری کپڑے پہن کر مرزا غالب تیار ہوئے اور ہوادار میں سیکرٹری صاحب بہادر کی کوٹھی پر پہنچے۔ منشی غلام رسول پائیں باغ میں پونے دس بجے سے ان کی تشریف آوری کے منتظر تھے۔ جونہی کہاروں نے ہوادار کندھوں سے اُتارا، منشی غلام رسول مسٹر ٹامسن بہادر کو خبر دینے کے لیئے کوٹھی کے اندر داخل ہوئے۔
غلام رسول: سرکار مرزا غالب سلام عرض کرتے ہیں اور فرماتے ہیں۔ حسب الحکم میں حاضر ہوں۔
ٹامسن: (گھڑی دیکھتے ہوئے) بہت پابندی وقت سے تشریف لائے۔ اچھا سلام دو اور کہو تشریف لائیں۔
منشی غلام رسول باہر آئے۔ غالب چہل قدمی کررہے تھے۔
غلام رسول: حضور تشریف لے چلیئے۔ صاحب بہادر یاد فرماتے ہیں۔
غالب: (حیرت سے) کیا کہا؟
غلام رسول: آپ کو بلایا ہے حضور۔
غالب: بُلایا ہے؟ دستور کے موافق صاحبِ سکتّر بہادرمجھ ناچیز کو لینے آئیں تو میں چلا چلوں گا۔
غلام رسول: بہتر میں جا کر عرض کرتا ہوں۔
منشی غلام رسول ایک بار پھر اندر آگئے اور مسٹر ٹامسن سے کہا۔
غلام رسول: حضور وہ فرماتے ہیں کہ حسبِ دستور میرے لینے کو آئیں تو میں چلوں۔
ٹامسن: (مسکرا کر) بڑے بگڑے دل و دماغ دار معلوم ہوتے ہیں۔ چلو میں خود ان سے بات کرتا ہوں۔
مسٹر ٹامسن کوٹھی سے باہر نکلے اور مرزا غالب سے مصافحہ کیا۔
ٹامسن: تسلیم عرض کرتا ہوں مرزا صاحب۔
غالب: کورنش بجا لاتا ہوں۔
ٹامسن: آپ اندر تشریف کیوں نہیں لائے۔
غالب: دستور کے موافق آپ مجھ ناچیز کو لینے آتے، میں حاضر ہوتا۔
ٹامسن: (مسکرا کر) مرزا صاحب۔ جب آپ دربار گورنری میں تشریف لائیں گے تو آپ کا اسی طرح استقبال کیا جائے گا لیکن اس وقت آپ نوکری کے لیئے آئے ہیں۔ اس موقع پر وہ برتاؤ نہیں ہوسکتا۔
غالب: قبلہ گورنمنٹ کی ملازمت کا ارادہ کرکے حاضر ہوا ہوں اور یہ امید تھی کہ اس ملازمت سے کچھ عزت زیادہ ہو جائے، نہ اس لیئے کہ رہی سہی عزت میں فرق آئے۔
ٹامسن: میں قاعدے سے مجبور ہوں۔
غالب: (ہوادار کی طرف جاتے ہوئے) تو مجھے اس خدمت سے معاف رکھا جائے۔ تسلیم عرض ہے۔
ٹامسن: تشریف لے جائیے گا۔۔۔۔۔۔؟
غالب ہوادار میں بیٹھ جاتے ہیں اور کہاروں کو حکم دیتے ہیں کہ واپس گھر چلو، واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں۔ گھر کے باہر اپاہجوں اور بھکاریوں کا ہجوم جمع ہے اور بی رحیمن ان میں خیرات بانٹ رہی ہے۔ مرزا صاحب کو سخت حیرت ہوئی۔ جلدی جلدی اندر داخل ہوئے۔ صحن میں پہنچے تو دیکھا کہ تخت پر امراؤ بیگم دوگانہ ادا کرنے میں مشغول ہیں۔ انہوں نے سلام پھیرتے ہی مرزا صاحب کو مخاطب کیا۔
امراؤ بیگم: الحمدللہ! کہئے خدا کا فضل ہوگیا۔
غالب: (غالب تخت پربیٹھتے ہوئے) جی ہاں، ہوگیا۔
امراؤ بیگم: کیا مطلب؟
غالب: مطلب یہ کہ رہی سہی عزت مٹی میں ملنے سے بچ گئی۔
امراؤ بیگم: ہائیں! یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔
غالب: (اٹھ کر تمکنت کے ساتھ) بیگم! عزت و ناموس کے لیئے ہم مغل بچے مرمٹنے والے ہیں۔ میں وہاں اس خیال سے گیا تھا کہ ملازمت سرکاری سے کچھ اس عزت میں اضافہ ہو جائے گا مگروہاں صاحب سکتر بہادر میرے استقبال کو باہر نہ آئے۔ بھلا سوچو۔ مجھے یہ بے عزتی کیسے گوارا ہو سکتی ہے۔
بندگی میں بھی وہ آزادۂ خود بیں ہیں کہ ہم
اُلٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
لیکن میں پوچھتا ہوں۔یہ باہر خیرات کیسی بٹ رہی ہے۔
امراؤ بیگم: (فکر مند ہو کر) کچھ نہیں۔
غالب: کچھ نہیں کیا۔ تم ابھی کل ہی کہہ رہی تھیں۔ کب تک گھر کا اثاثہ بیچ کر گزران ہوگی۔
امراؤ بیگم: (مسکرا دیتی ہیں)
غالب: ارے بھئی کچھ تو بتاؤ؟
امراؤ بیگم: کیا بتاؤں۔۔۔۔۔۔؟ کل میں نے اپنا جڑاؤ گلوبند بی ر حیمنسے گراؤ رکھوا کر کچھ روپے منگوائے تھے۔ شہر میں آپ کی ملازمت کا چرچا سن کر درپر یہ بھکاری جمع ہوگئے تو میں نے بی ر حیمن سے کہا۔’’جاؤ ان کا سر صدقہ دے آؤ۔‘‘
غالب کھکھلا کر ہنس پڑتے ہیں۔ امراؤ بیگم گہری سوچ میں پڑ جاتی ہیں۔
مصنف:سعادت حسن منٹو