آج سے سات سو سال پہلے کا ذکر ہے ایک شخص آندھی کی طرح اُٹھا اور قریب قریب ساری دنیا پر چھا گیا ۔اس شخص کا نام’’ چنگیز خان ‘‘تھا ۔جس کی دہشت ایک زمانہ تک لوگو ں کے دلو ں پر طاری رہی۔زندگی میں اس کو بہت سے خطاب ملے‘کسی نے اس کو ’’انسان کو ہلاک کرنے والا دیو ‘‘کہا۔کسی نے ’’شاندار لڑکا‘‘کا لقب دیا ۔
یورپ کے بڑے بڑے جنگجو ؤں کی فہرست میں سب سے پہلا نام ’’اسکندر مقدونی کا آتا ہے۔پھر روما کے چند بادشاہو ں کا ۔‘‘ نپولین اعظم کے نام پر یہ مختصر فہرست ختم ہو جاتی ہے۔یورپ کی جنگی اسٹیج پر یہی اور سب سے زیادہ شاندار ایکٹر تھے۔مگر جب ہم دوسرے ملکو ں کی تا ریخ پر نظر ڈا لتے ہیں تو ہمیں چنگیز خان زیادہ ہیبت ناک اور بڑا دکھِائی دیتا ہے۔
یورپ میں اس وقت ہٹلر جس طرح تبا ہی پھیلا رہا ہے‘اسی طر ح اُس زمانے کے ہتھیا رو ں کے ساتھ چنگیز خا ں نے دہشت و خون کا بازار گرم کیا۔۔۔اس کی خوف ناک فوجو ں کے راستے میں جو شہر آئے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔جہاں سے اس کا لشکر گزرتا وہاں کے دریا اپنی رہ گذر بدل دیتے۔وہا ں کی زمین جو کبھی آدمیو ں سے آبادتھی سوائے بھیڑیو ں اور مردار کھانے والے پرندو ں کے اور کو ئی دوسراجاندار نظر نہیں آتا تھا ۔
لڑائی کے معاملے میں نپو لین بونا پارٹ یو رپ میں سب سے ممتاز نظر آتا ہے۔مگر اُس سے چند غلطیا ں ایسی ہو ئیں جن کو ہم کبھی نہیں بھو ل سکتے۔ایک مرتبہ مصر میں ایک فوج دشمن کے رحم و کرم پرچھوڑ خو د بھا گ نکلا ۔دوسری مرتبہ اُس نے اپنی فوج کو روس کی برفوں میں مرنے کے لیئے پیچھے چھو ڑا اور خودواٹر لو کے بھنور میں جا پھنسا۔ایسی زبردست غلطیا ں ہمیں چنگیز خاں کی فو جی زندگی میں نظر نہیں آتیں ۔اس نے آ رمینیا سے لے کر کوریا تک ‘اور تبت سے لے کر روس کے دریا وولگا تک ایسی سلطنت کی بنیا دیں قائم کیں کہ اس کے مرنے بعد اس کا بیٹا اوکتائی بغیر کسی مخا لف کے اس کا جا نشین تسلیم کیا گیا ۔اور اس کی پوتے نے آدھی دنیا پر بادشاہت کی ۔
آج سے سات سو سال پہلے جب دریائے اونان کے کنارے دولن بلداق کے مقام پر یسوکائی بہا در کے گھر تمو چن پیدا ہو ا تو دیکھا گیاکہ اس کی مٹھی میں جما ہوا خو ن ہے۔۔۔ماں کے پیٹ سے وہ خو ن سے رنگے ہو ئے ہاتھ لے کر آیا۔
اس زمانے میں جہا ں چنگیز خاں پیدا ہو ا ‘ملک کی حا لت بہت ابتر تھی اکثروبیشترحصہ بنجر اور ویرا ن تھا جس میں ہر دم گھوڑے پر سوار شکار پیشہ‘آوارہ گرد ہرنوں اور چکارو ں کے شکار میں خا نہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے۔اس ملک کا لباس جا نورو ں کی کھا لیں ہوتی تھیں۔دودھ اور گوشت سب کی خو راک تھی ۔سردی اور با رش سے بچنے کے لیئے جسم پر چربی ملتے تھے۔جاڑے پالے میں ٹھٹھر کر مرجانا ‘فاقو ں سے دم نکل جا نا ‘دشمن کی تلوار سے کٹ مرنا ۔۔۔ان میں سے کسی بات کی بھی ان کو پرواہ نہ تھی۔یہ خانہ بدوش بڑے وحشی آدمی تھے۔چنگیز خاں یہ نکتہ سمجھ گیا کہ ان وحشیوں کو ایک دوسرے کا گلا کا ٹنے سے باز رکھنے کے لیئیاس کے سوا کو ئی تدبیر نہیں کہ ا نہیں کسی غیر ملک بھیج دیا جائے۔۔۔خلا صہ یہ ہے کہ چنگیزخاں نے اپنی قوم کے ان بگو لو ں پر چار جامے کس کر باہر کے ملکو ں پر آندھی کی طرح جا چڑھایا۔
چنگیز خا ں کی ہنگاموں بھر ی خونی زند گی ایک مختصر مضمو ن میں نہیں سما سکتی۔۔۔ہم چنگیز خا ں کے صرف آخری ایام کو پیشِ نظر رکھیں گے۔جب وہ سترسال کا بڈھا تھا ۔اور تقریباََ آدھی دنیا فتح کر چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پردہ اٹھتا ہے۔۔۔سن بارہ سو پچّیس۔۔۔کڑکتا جا ڑہ۔۔۔دریا۔۔۔تولہ کے کنارے چنگیز خا ں خیمہ زن ہے۔
چنگیز : بغورچی تم نے اور مقولی نے میری مدد کی ہے۔جو کام میں نے تمہا رے سپرد کیا تم نے بڑی درستی سے کیا ۔تم نے مجھے برا بھی کہا مجھے ایسے کاموں سے روکا جو غلط تھے۔۔۔تمہاری انہی با تو ں سے آج میں اس اعلیٰ مرتبے پر پہنچا ہو ں ۔اس وقت آدھی دنیا میرے قبضے میں ہے۔ارمینیا سے لے کر کوریا تک اور تبت سے لے کردریائے وولگا تک میری سلطنت پھیلی ہو ئی ہے۔۔۔میں بہت خو ش ہو ں ۔۔۔ میں بہت خو ش نصیب ہو ں ۔
بغورچی: خان اعظم کو وہ دن یا د ہو گا جب بغورچی سے اس کی دوستی ہو ئی ۔۔۔آپ کے آٹھ گھوڑے جو چور چرا لے گئے تھے ہمیں دوستی کے اس مضبوط رشتے میں جکڑدیا۔۔۔اس راستے میں جدھر سے نایَحوت آپ کے آٹھ گھو ڑے چرا کر لے گئے تھے میں ایک گھوڑی کا د ودھ د وہ رہا تھا۔کسے خبر تھی کہ وہ نو جو ان جو آٹھ گھوڑوں کے لیئے اتنا حیران اور پریشان ہے ایک روز آدھی دنیا کا مالک ہو گا ۔۔۔ خاقا ن کو یا د ہو گا کہ اپنی گھوڑی ٹھہرا کر۔۔۔
چنگیز: مجھے اچھی طر ح یاد ہے میں نے تم سے بڑی پریشانی کے عالم میں پو چھا تھا ’’کیا تم نے ادھرآٹھ کوتل گھوڑے اور سوار دیکھے ہیں ۔‘‘
بغورچی: اور میں نے جواب دیا تھا ’’ہا ں سورج نکلنے سے پہلے کئی سوارآٹھ گھوڑوں کو جن پر کو ئی بھی سوار نہیں تھا ‘ساتھ لیئے ادھر سے گزرے تھے۔جس راستے سے وہ گئے ہیں وہاں گھوڑو ں کے سمو ں کے نشان ہیں ۔۔۔۔وہ تمہیں دکھا سکتا ہو ں۔
چنگیز: ہم بڑی ترکیب سے ان گھو ڑوں تک پہنچے۔اور انہیں ہا نک کر واپس لے آئے۔تا ےَحوت کو خبر ہو گئی انہو ں نے ہمارا پیچھا بھی کیا ۔تم نے مجھ سے کہا ’’وہ تیر کما ن مجھے دیدو میں پیچھے رہ کر ان کا مقا بلہ کرو ں گا ۔‘‘
بغورچی: مگر آپ نے میری درخواست منظو ر نہ کی ۔غرض یہ کہ ہم دونو ں گھوڑے دوڑاتے آگے بڑھتے رہے یہا ں تک کہ شام ہو گئی‘اور روشنی کم ہو نے لگی مگر وہ سبزے گھوڑے والا تا ےَحو ت اب اس قدر قریب آ گیاتھا کہ اپنی مدد آپ پر اور مجھ پر آسانی سے پھینک سکتا تھا ۔
چنگیز: میں نے اس وقت تم سے چلا کر کہا تھا ’’بغورچی دیکھو کہیں یہ دشمن تمہیں کہیں اپنی کمندسے گرا کر زخمی نہ کردے۔۔۔ٹھہرو میں اس پر تیر چلا تا ہوں ۔‘‘
بغورچی: تیر نشانہ پر بیٹھا۔۔۔وہ تا یَحوت گھوڑے کی پیٹھ پر سے گرا اور ہم رات کے اندھرے میں آٹھو ں گھوڑے ساتھ لے بھاگے۔
چنگیز : (ہنستا ہے)تم جب واپس اپنی جگہ پر پہنچے تو ڈرے کہ تمہا را باپ تمہاری غیر حاضری پر خفا ہو گا ۔۔۔پہلے جلدی سے جا کر تم نے دودھ کا مشکیزہ گھا س میں سے نکالا اور اپنے باپ سے کہا ’’یہ میرے ساتھ والے آئے تو بہت تھکے ہو ئے تھے۔ اور بہت پریشان تھے میں ان کے ساتھ چلاگیا ۔‘‘
بغورچی: میرا با پ بجا ئے نا را ض ہو نے کے بہت خو ش ہوا اور کہنے لگا :تو تم دونوں نو عمر ہو مناسب ہے کہ ہمیشہ دوست رہو ۔۔۔بڑے پکے اور وفادار دوست۔‘‘
چنگیز : (لمبا سانس لے کر)۔۔۔جوانی کے دن بھی کیا دن ہو تے ہیں۔۔۔
بغورچی بلند آسمان کی قسم ہے۔خاقان تمہیں اپنا عزیز ترین دوست یقین کرتا ہے۔۔۔قدرت کے رنگ نیارے ہیں۔مو سیٰ آگ لینے گیا تو اسے پیغمبری مل گئی۔میں اپنے گھوڑو ں کا کھوج لگانے نکلا تو مجھے تم مل گئے۔(ہنستا ہے)
بغورچی: (ہنستا ہے)
چنگیز: بغورچی اچھا ‘بھلا یہ تو بتا ؤ۔انسان اپنی سب سے بڑی خو شی اور مسرت کس با ت میں سمجھتا ہے۔۔۔یہ بات تم سے پوچھنے کے لیئے میں کئی دنوں سے ارادہ کررہا تھا ۔۔۔یوروگولا! بغورچی کے بعد ہم تم سے بھی یہ سوا ل کریں گے۔جواب سوچ رکھو ۔۔۔
بغورچی: سب سے بڑی خوشی اور مسرت انسان کے لیئے اس میں ہے کہ بہار کا موسم ہو‘عمدہ گھوڑے پر انسان سوار ہو ‘ہاتھ میں شکرہ ہو‘اور اس سے شکار مارتا ہو ۔‘‘
چنگیز: نہیں بھائی!اس سے میری تسلی نہیں ہو ئی ۔بہار کا موسم۔عمدہ گھوڑا۔۔۔
شکرہ اور شکار۔۔۔یہ سب غلط ہے۔ان چیزو ں میں انسان کی سب سے بڑی خوشی نہیں ہو سکتی ۔۔۔یوروگولا!اب تم ہمارے سوال کا جواب دو۔بغورچی کے جواب سے ہم مطمئن نہیں ہو ئے۔
یوروگولا: صحرائے گوبی میں چلنے والی ہواؤ ں کی طرح انسان آزاد ہو ۔۔۔عیش کا سامان پاس ہو ۔۔۔خوبصورت عورتیں اور رنگین شراب ہو ۔۔۔اور۔۔۔
چنگیز: غلط ۔۔۔بالکل غلط ۔۔۔اچھا تم بتا ؤ۔۔۔چغتا ئی تمہا را کیا خیا ل ہے۔
چغتائی: خان اعظم ا پنے بیٹے کو خود ہی بتا ئیے کہ انسان کی سب سے بڑی خوشی اور مسرت کس بات میں ہے۔
چنگیز: لو سنو۔۔۔ انسان کی سب سے بڑی مسرت اس میں ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو شکست دے ‘ان کو پیس ڈالے۔اپنے سامنے اسے بھاگتا ہوا دیکھے۔جو کچھ ان کے پاس ہو اسے اپنے قبضہ میں لے آئے۔جن لوگوں سے اسکے دشمنو ں کو محبت ہو ان کو روتا دیکھے۔۔۔ان کے گھوڑو ں پر سوار ہو ۔۔۔ان کی زندگی کی ہر خو بصورت شئے کو ٹاٹ کی طرح استعمال کرے۔۔۔آہ ہماری کتنی بڑی خواہش ہے کہ اس باغی بادشاہ تنگوت کو اس کے جرم کی قرار واقعی سزادیں۔بغورچی تمہار اکیا خیا ل ہے۔کیا ہمیں اس سرکش بادشاہ کے ملک پر چڑھا ئی نہیں کر دینی چاہیئے۔
بغورچی: خاقان کا جو خیا ل ہے وہی ہمارا خیا ل ہے۔کیو ں یو روگولا ۔
یوروگولا: با لکل بجا ہے۔
چنگیز: محض انتقام لینے کی خا طر ہم اس کے ساتھ جنگ کرنا نہیں چا ہتے ۔ تنگوت کے ملک کو فتح کرنے کے اور اسباب بھی مو جو د ہیں۔جن کو ہم مصلحت سمجھتے ہیں ۔۔۔بغورچی تمام سپہ سالارو ں کو حکم دے دیا ہے کہ سارا لشکر فوراََ تیار ہو جائے۔ہم بہت جلد حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بغورچی: بہتر بہتر۔
چنگیز: جنگ کا نقشہ ہم آج ہی تیار کر دیں گے جس کے مطا بق ہمارے سپہ سالارو ں کو لڑنا ہو گا ۔۔۔تم اس ا ثنا ء میں جا سوس روانہ کردو۔لڑائی کا جو نقشہ تیار کیا جا ئے گا س کی صراحت فوراََ ہی کردی جا ئے گی ۔جو راستے تجویز کیئیجا ئیں گے ان سے تمام سپہ سالارو ں کو باخبر کردیا جائے گا ۔۔۔بغورچی ! میرے نا فرمان بیٹے جورجی کی کوئی تازہ خبر؟۔۔۔تم نہیں جا نتے ہماری فتوحات سے بھرپور زندگی پر جورجی کا وجود کالے بادل کی طر ح چھا گیا ہے۔۔۔اس کی نا فرمانبرداریو ں نے ہماری زندگی تلخ کر دی ہے آخر وہ چا ہتا کیا ہے۔
بغورچی: وہ آپ سے اور آپ کی سلطنت سے علیحدہ رہنا چاہتا ہے اور خو د ایک سلطنت قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس سلطنت میں وہ ان ملکو ں کا کچھ حصہ بھی شامل کرنا چا ہتا ہے جو آپ نے حا ل ہی میں فتح کیئے ہیں ۔
چنگیز: مجھے معلوم ہے۔۔۔ مجھے سب کچھ معلوم ہے۔۔۔جس زمانے میں ہماری فوج خوارزم شاہ سے لڑرہی تھی اس نا لا ئق نے ہماری حکمت عملیسے اختلا ف کیا ۔۔۔اس کی فہرست اتنی طویل ہے کہ۔۔۔یو رو گولا ۔
یوروگولا: حضور۔۔۔
چنگیز: لشکر کے سامنے ہمارے الفاظ ایک بار پھر دہرا دو۔۔۔یاد ہیں تمہیں وہ الفاظ روز مرہ کی زندگی میں ایسے رہو جیسے دوبرس کا گا ئے کا بچہ۔لیکن لڑائی میں لشکر بن جا ؤ۔ضیافتو ں اور جلسو ں میں اس طر ح کھا ؤ جیسے سانڈھ کھاتے ہیں۔لیکن لڑائی میں عقاب بن کرشکار پر جھپٹو ۔دن کی روشنی میں بڈھے بھیڑیئے کی طر ح چوکنے اور رات کے اندھیرے میں کالے کوّے کی طر ح ہوشیاررہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین سے جس وقت چنگیز خاں واپس آیا تھا تو قن کے ملک کے ان حصوں پر جو مغلو ں نے فتح کیا تھا ‘قن نے پھر اپنا قبضہ جما لیا تھا۔مقبو ل نو یا ں جو چنگیز کا نا ئب تھا قن سے برابرلڑتا ر ہا ۔چنگیزخاں نے سوچا کہ جغرافیائی حالا ت کچھ ایسے ہیں کہ قن کا خاتمہ اس وقت تک نہ ہو سکے گا جب تک تنگوت کے ملک میں اس کی حکومت قائم نہ ہو جا ئے۔کیو ں کہ تنگوت کے ملک سے اس کی راجدھانی پر حملہ کرنا آسان تھا ۔غرض یہ تنگوت سے لڑنے چنگیز خاں نے اس لیئے ضروری سمجھا کہ اکہتر برس کی عمر میں بھی لشکر کا سردار بن کے اُٹھا ۔اور اس ملک پر چڑھائی کردی۔
سن بارہ سو چھبیس میں تنگو ت سے لڑائی شروع ہو ئی ۔چنگیز خاں کی بیوی یسوئی اور شہزادے ساتھ تھے۔شروع شروع میں لڑائی میں کامیابی رہی ۔لیکن جب جاڑا آیا تو چنگیز خاں ایک دن گھو ڑے پر سے گرا اور ایسی چوٹ آئی کہ اس کے صدمے سے بیمار ہو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
یسوئی: خان کے دشمنو ں کی طبیعت بہت خراب ہے ۔گھوڑے پر سے گر کر ایسی چوٹ آئی ہے کہ کئی جو ڑ ہل گئے ہیں۔کل سے تیز بخار ہے۔میں نے آپ لوگو ں کو اس لیئے یہا ں بلایا ہے کہ اس جنگ کے متعلق بات چیت کی جا ئے جو روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔۔۔بغورچی تم بتا ؤ کیا ایسی حالت میں جنگ جاری رکھنی چاہیئے؟
بغورچی: خاقان کی حا لت نازک نہیں کہی جا سکتی۔مگر اس بڑھاپے میں شدید چو ٹیں بہت خطرناک ہو تی ہیں ۔۔۔میری یہ تو رائے ہے کہ کچھ دیر کے لیئے یہ جنگ ملتوی کردی جائے۔خاقان کا علاج یہا ں نہیں کیا جا سکتا۔ جب وہ تندوست ہو جا ئیں تو جنگ دوبارہ شروع کر دی جائے۔
یو رو گولا: اس رائے سے مجھے بھی اتفاق ہے۔
چرجووائی: میں سمجھتا ہو ں یہ رائے بالکل درست ہے۔۔۔حضور کی تندرستی سب سے ضروری ہے۔
یسوئی: بلانویا ں ۔۔۔تم اس بارے میں کیا کہتے ہو ۔
بلانویا ں: تنگوت خانہ بدوش نہیں ہیں ۔شہرو ں میں رہتے ہیں۔کہیں چلے تو جائیں گے نہیں ۔پھر دیکھا جائے گا اب ہم اپنے وطن کو واپس چلے جا تے ہیں ۔جب خاقان کا مزاج ٹھیک ہو جا ئے گا تو پھر یہا ں آجائیں گے۔
یسوئی: تو پھر یہ طے ہے ۔
(اچانک بیساکھیو ں کی مدد سے چنگیز اندر داخل ہوتا ہے)
چنگیز: کچھ طے وے نہیں ۔۔۔ہمارا مزاج بخیر ہے ۔۔۔ہم یہا ں رہیں گے۔ یسوئی ایک بیوی کی حیثیت سے ہمیں اپنی ہمدردی کی قائل کر سکتی ہے۔ مگر جنگ کے میدان میں تمہاری ہمدردی مجھے کبھی متاثر نہیں کر سکتی۔۔۔یوروگولا ۔۔۔ ہمارے بیٹھنے کے لیئے چوکی لا ؤ
(فوراََ چوکی رکھ دی جاتی ہے)
چنگیز: (چوکی پر بیٹھ کر)بغورچی!یہ چپکے چپکے کیا سازش ہو رہی تھی۔۔۔بہت افسوس ہے کہ تم بھی میدان جنگ چھوڑنے پر رضا مند ہو گئے۔
بغورچی: خاقان آپ کی صحت سب چیزوں پر مقدم ہے۔
چنگیز: اور ہماری خو شی اس پر مقدم ہے۔۔۔تم لوگ یقین کرو گے کہ ہم بہت جلد صحت یا ب ہو جائیں گے۔۔۔ہمارا علاج میدان جنگ میں ہی ہوگا۔ ۔۔۔تم لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر اس وقت یہا ں سے چلے گئے تو وہ پاجی تنگوت یہ سمجھیں گے کہ ہم ڈر گئے۔۔۔آج اکہتر برس کی عمر میں ہم گھو ڑے پر سے گر کر اپنا وقار زخمی کرالیں؟ نہیں ۔ہم ہرگز یہاں سے نہیں جا ئیں گے۔بغورچی! تم ایک ایلچی تیا ر کر کے تنگوت کے پاس بھیجو جو ہمارا پیغام لے جائے۔
بغورچی: پیغام ارشاد ہو!
چنگیز: لمبے چو ڑے القاب وغیرہ بالکل نہ لکھے جا ئیں۔بس اس سے صرف اس قدر کہا جا ئے۔۔۔تنگوت نے شروع سے ہی ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ تم ہمارے دست راست بنو گے ۔لیکن جب ہم مسلما نو ں سے لڑنے گئے تو تم نے ہمارے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا ۔اور اس نا فرمانی کے ساتھ ہماری تو ہین کی ۔۔۔اب مسلما نو ں کو مغلوب کرنے کے بعد میں تم سے نپٹنا چا ہتا ہو ں ۔۔۔ہمارے قہر سے ڈرو اور ہتھیا ر ڈال دو۔
بلا نو یا ں: آپ قوت وسطوت کے خدا ہیں ۔۔۔میں اکثر سوچتا ہو ں کہ آپ کے ہاتھ پر کو ئی علامت قوت وسطوت کی ہے بھی یا نہیں ۔
چنگیز: (ہنستا ہے)بلانویا ں۔ میں تمہیں ایک دلچسپ واقع سناتا ہو ں مسندِ خانی پر بیٹھنے سے پہلے ہم ایک بار گھو ڑے پر سوار ہوئے تھے۔ایک پُل پر سے گذرنے لگے تو دیکھا ہماری تاک میں چھ آدمی ہیں ۔ہم تلوار سونت کر ان کی طرف بڑھے۔ انہوں نے دور سے ہی ہم پر تیر برسانے شروع کیئے لیکن جتنے تیر انہو ں نے پھینکے سب کے سب خطاگئے۔ایک بھی ہمارے نہ لگا ۔ہم آگے بڑھے اور چھؤ ں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔۔۔واپسی میں پھر اسی جگہ سے جہا ں ہم نے دشمنو ں کو قتل کیاتھاگذر ہوا تو دیکھا کہ ان کے گھو ڑے خا لی پیٹھ پھر رہے ہیں۔ہم نے ان گھو ڑو ں کو پکڑا اور ہانک کراپنے گھر لے آئے بو لو اس سے کیا نتیجہ نکالتے ہو ۔
بلا نو یا ں: غلام اس سوال کا جواب مل گیا ۔۔۔خاقان قوت و سطوت کا خدا ہے۔‘
(ہنستا ہے)خدا کا تازیانہ ہے۔۔۔قہرِ الٰہی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[چنگیز کا بھیجا ہوا ایلچی تنگوت کے پاس گیا ۔اور وہا ں سے ایسا نا گوار اور تکلیف دے جواب لایا۔کہ چنگیز کا غیظ وغضب اور بڑ ھ گیا ۔اس نے سردارو ں سے کہا :اب بھی ممکن ہے کہ ہم یہا ں سے چلے جا ئیں ۔۔۔ہم مر جا ئیں گے پر تنگوت کو سزا دئیے بغیر نہیں چھو ڑیں گے۔
چنگیز خاں نے اپنے دشمنو ں سے بدلہ لینے کی ہر ممکن کو شش کی مگر اس کی صحت اب بالکل جواب دے چکی تھی۔وہ اب صرف چند دنو ں کا مہما ن تھا ۔۔۔‘‘]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلا نویا ں: حضو ر اطلاع ملی ہے کہ آپ کے لڑکے یوجی نے پھر بغا وت کا جھنڈا بلند کر دیا ہے۔
چنگیز: اس نا خلف لڑکے نے ہمیں بہت تنگ کیا ہے ۔۔۔تم ایک کام کرو فوراََ ایک لشکر تیا ر کرکے اس کی سرکو بی کیلیئے روانہ کردو۔
بلا نویا ں: بہت اچھا حضو ر۔
خادم: جہا ں پنا ہ۔۔۔بغورچی قدم بو سی کے لیئیحاضر ہیں۔
چنگیز: اس کو اندر بھیج دو۔۔۔ہا ں تو ہم تم سے یہ کہہ رہے تھے کہ یوجی کی سرکوبی کے لیئے فو راََ ایک لشکر روانہ کردیا جائے۔۔۔اس نا خلف لڑکے نے ہمیں بہت ستایا ہے کاش کہ ہم بیما ر نہ ہو تے۔
بغورچی: یہ لڑکا اب کبھی اپنے باپ کو نہیں ستائے گا ۔
چنگیز: اس سے کیا مطلب ہے!
بغورچی: ابھی ابھی اطلا ع آئی ہے کہ یوجی کا انتقال ہو گیا ہے۔۔
چنگیز: کیا کہا ۔۔۔یوجی ہمارا بیٹا مر گیا ۔۔۔(توقف کے بعد)ہم تھو ڑی دیر کے لیئیدوسرے کمرے میں جا رہے ہیں ابھی آتے ہیں ۔
(دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے)
بلانو یا ں: تم نے دیکھا خاقان کو اپنے بیٹے کی موت کا صدمہ ہواہے۔
بغورچی: میں نے خان کو آج پہلی بار مغموم دیکھا ہے۔
بلانو یا ں: اس لیئے دوسرے کمرے میں چلے گئے۔
[ بیٹے کی موت پر چنگیز خاں نے تنہا ئی میں بہت غم کیا ۔مگر یہ غم کسی پر ظاہر نہ ہو نے دیا ۔فوجیں برابر آگے بڑھتی رہیں ۔چلتے چلتے صنوبر کے جنگل سے گذر ہو ا جہا ں دھوپ کی حدت کہ باوجود درختو ں کے سائے تلے برف جمی ہو ئی تھی۔۔۔یہا ں پہنچتے ہی چنگیز خا ں نے لشکر کو ٹھہرنے کا حکم دیا اور قا صدوں کو بلا تے ہو ئے کہا کہ جلد گھوڑے دوڑا کرتولی کے پاس جا ؤ۔اور اس سے کہو کہ فوراََ میرے پاس آئے۔تولی اس کا بیٹا جب خاقان کے خیمے میں دا خل ہوا تو اس نے دیکھا کہ باپ آتشدان کے قریب ایک قالین پر سمور میں لپٹا پڑا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنگیز: آؤ! تولی میرے بیٹے آؤ۔۔۔میں تمہا را منتظر تھا ۔۔۔آؤ ادھر میرے پاس بیٹھو ۔۔۔میرے وفادار دوست اور بہا در جرنیل اس وقت موجود ہیں ۔میں ان سے کہہ چکا ہو ں کہ میری موت اب بالکل قریب آگئی ہے۔۔۔جب میں ا س سے نہیں ڈرتا تو تم کیو ں ڈرو۔
تو لی: ابا جی ایسا نہ کہیئے۔۔۔
چنگیز: بیوقوف نہ بنو ۔۔۔تو ہم وصیت کرنا چا ہتے ہیں ۔فضول با تو ں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔۔۔سنو ہماری وصیت ہے کہ قن کی لڑائی جا ری رہے۔جس وقت تنگوت کی راجدھانی فتح ہو جا ئے تو تنگو ت کے بادشاہ کو اور اس کے تمام ساتھیو ں کو جو اس کے ساتھ رہتے ہیں قتل کر دیا جا ئے۔ جب تک یہ صورت پیش نہ آئے ہماری موت کو پو شیدہ رکھا جائے۔۔۔(توقف کے بعد)اوکتا ئی تمہا را بھا ئی بلندہمت اور رحمدل ہے ۔ اس کا حسنِ اخلا ق بہت اچھا ہے لوگ اسے پسند کرتے ہیں اس لیئے ہم اسے اپنا جا نشین مقرر کرتے ہیں ۔۔۔
تو لی: آپ کا فیصلہ برحق ہے۔
چنگیز: تولی۔۔۔مشرق میں جس قدر ملک ہیں تم ان کے ما لک ہو
تو لی: شکریہ۔
چنگیز: اور تمہا رے چھوٹے بھائی چغتا ئی کو ہم نے مغربی ملک دےئے۔۔۔تم لوگ سب سُن لو اب ہمارے ان الفاظ میں تبدیلی نہ ہو نے پا ئے۔۔۔ لڑائی جا ری رہے۔اور تنگوت کے بادشاہ کو معہ اس کے ساتھیو ں کے موت کے گھاٹ اتارا جائے۔۔۔یہ بھی یاد رہے کہ دشمن کو ہماری مو ت کی اطلا ع نہ پہنچنے پا ئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وصیت مکمل کر نے کے بعد چنگیز خاں کی رُو ح پرواز کر گئی۔۔۔اس کا انتقال جنوبی چین میں ’’سنگ‘‘ کے اندر ہوا ۔اس خیا ل سے کہ دشمنو ں پر اس کی مو ت ظاہر نہ ہو ۔ تابوت لے جاتے وقت راہ میں جو آدمی بھی ملا اسے قتل کر دیا گیا ۔۔۔وہ انسان جو ماں کے پیٹ سے مٹھی میں جما ہو ا خون لے کر پیدا ہو ا۔۔۔ساری عمر خو ن کی ہو لی کھیلتا رہا ۔موت کے بعد بھی خو ن خرابے کا با عث ہوا۔
چنگیز خاں کا تا بو ت گاڑی میں جا رہا تھا اورلو گ بین کر رہے تھے ۔اس سے پہلے تو شکرے کی طر ح شکار پر گرتا تھا ۔۔۔آج بھاری آواز دیتی ہو ئی گاڑی تیرا تابوت لیئے جا رہی ہے۔۔۔ہا ئے میرے چنگیز خاں۔۔۔۔ کیا یہ سچ ہے کہ تو اپنے بیوی بچو ں کو چھوڑ کر چلا گیا ۔اور اپنی قوم کی مجلس سے اٹھ گیا ۔۔۔ہا ئے میرے خان۔۔۔ پہلے تو عقاب کی طرح چکر کاٹتا ہوا ہمارے آگے آگے راہ بتاتا ہوا چلتا تھا ۔آج تو نے ٹھو کر کھا ئی اور گر گیا ۔۔۔ہا ئے میرے خان!
مأخذ : کتاب : جنازے اشاعت : 1942
مصنف:سعادت حسن منٹو