اپنے فتح مند بیٹے محی الدین اورنگزیب کی قیادت میں جب شہاب الدین شاہجہاں نے آگرے کے دروازے کھول دیئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے اپنی عُمر کا بقایا حصّہ قلعے میں ایک قیدی کی حیثیت میں گزارنا پڑا۔ شاہجہان کے لیئے جو کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کا شہنشاہ تھا اور شہنشاہیت کے علاوہ جس کے پہلو میں ایک عظیم الشان آرٹسٹ کا دل تھا قید و بند کی صعوبتیں بے صبر آزما تھیں۔ تاج محل جیسی شاندار عمارت کا نقشہ فکر کرنے والے نے قلعے کی چار دیواری میں اپنے آخری دن کن مشکلوں سے بسر کیئے۔ یہ ایک بہت المناک داستان ہے ۔ ابتداء میں اس نے اپنے بیٹے کی عائد کردہ قیود کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔ اس کی رُوح نے کئی بار بغاوت کی مگر اورنگزیب کے آہنی ارادے کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی۔
بوڑھا تھا، نحیف تھا، عمر کے آخری برسوں میں اپنے بیٹے کے اعمال کا بوجھ اُٹھائے ہوئے تھا اس کے سب امراء اور اکابر ظفرمند بیٹے سے جا ملے تھے ۔ اب سوائے حرم کی عورتوں اور چند خواجہ سراؤں کے جو اس کی خدمت کے لیئے اورنگزیب نے مقرر کر رکھے تھے۔ شاہجہان کا نہ کوئی صلاح کار تھا نہ مشیر۔ ہندوستان کی تمام وسعت اپنی جیب میں ڈال کر اورنگزیب نے اسے قلعے کے چند کمروں میں قید کردیا تھا۔
چاروں طرف فتح مند اورنگزیب کی فوج نے گھیرا ڈال رکھا تھا۔ دن رات جاسوسوں کے ذریعے سے اس کی نگرانی کی جاتی تھی ۔ بہت کڑا محاسبہ کیا جارہا تھا کہ شاہجہان قلعے سے باہر کسی سے خط و کتاب نہ کرسکے۔
شاہجہان : (غصے کی حالت میں) مجھے بتاؤ، وفا نامی خواجہ سرا کا کیا ہوا؟
اورنگزیب: اس کا وہی حشر ہوا جو باغیوں کا ہوتا ہے۔
شاہجہان : اس نے کیا بغاوت کی تھی جو تم نے اسے اتنی کڑی سزا سُنا دی ہے۔
اورنگزیب : آپ نے اس کے ذریعے ایک خط باہر بھیجنا چاہا تھا۔
شاہجہان: تو اس میں اس کا کون سا جُرم تھا محی الدین ! تم مجھے اتنا کیوں ستا رہے ہو ۔۔۔ کیا اس قلعے کی چاردیواری میں قید کرکے بھی تم مطمئن نہیں ہوئے۔ تم نے اب میری تحریر پر بھی پابندیاں عائد کردی ہیں۔۔۔ میرے پیمانہ صبر میں کیا تمہیں کچھ گنجائش نظر آگئی تھی۔
اورنگزیب : میں آپ کو بار بار لکھ چکا تھا کہ بیرونی دنیا سے خط و کتابت کرنا قطعی طور پر ترک کردیں۔
شاہجہان: یہ تمہارے احکام تھے۔
اورنگزیب: جو آپ نے رد کردیئے۔
شاہجہان: بیٹا باپ پر حکومت چلائے ۔۔۔ محی الدین! میں اب تم سے کیا کہوں۔ تم اس وقت ہندوستان کے ظفرمند بادشاہ ہو۔ شاہجہان کے فرزند نہیں ہو۔۔۔
اورنگزیب: محی الدین اور اورنگزیب ظفرمند بادشاہ بعد میں ہے، پہلے وہ آپ کا بیٹا ہے۔
شاہجہان : تو باپ تم سے پوچھتا ہے کہ اس کی خط و کتابت پرنگرانی کیوں کی گئی۔ کیا اس قسم کی ذلّت تمہارا باپ برداشت کرسکتا ہے؟
اورنگزیب: چونکہ اس قسم کی خط و کتابت سے ملک میں بدامنی اور بغاوت پھیلنے کا اندیشہ ہے ، اس لیئے یہ احتساب ضروری سمجھا گیا۔
شاہجہان: میں تمہارے اس احتساب کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔۔۔ میں جس سے چاہوں گا خط و کتابت کرونگا۔
اورنگزیب : تو جس کے ہاتھ آپ خط روانہ کریں گے اس کا وہی حشر ہوگا جو وفا نامی خواجہ سرا کا ہوا۔۔۔میں تما م خواجہ سراؤں کے نام ایک تنبیہ جاری کر چکا ہوں۔۔۔ اگر انہوں نے وفا کی طرح کوئی حرکت کی تو انہیں وہی سزا بھگتنی پڑے گی جو اس کو مل چُکی ہے۔
شاہجہان: محی الدین، جاؤ ، میری آنکھوں سے دُور ہوجاؤ۔۔۔ ایسا نہ ہوکہ میرے منہ سے کوئی بددُعا نکل جائے۔۔۔ جاؤ یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔
اورنگزیب: جو کچھ میں کر رہا ہوں ، آپ کی اور ملک کی بہتری کے لیئے کر رہا ہوں،
بطور حفظِ ماتقدم اب آپ کو نوشت و خواند کا سامان نہیں دیا جائیگا۔ اگر آپ کو خط لکھوانا ہو تو ایک خواجہ سرا میں نے اس کام کے لیئے مقرر کردیا ہے۔ آپ خط کا مضمون بول دیا کریں وہ لکھ دیا کرئے گا۔
شاہجہان: تمہاری بہت مہربانی ۔۔۔ جاؤ ، اب یہاں سے چلے جاؤ ۔
8 جون 1658 ء کو جب شاہجہان قلعہ آگرہ میں محصور کیا گیا تو اورنگزیب نے فوراً ہی تنہا ہی محلوں کے ان کمروں کو جن میں جواہرات اور قیمتی سازو سامان تھے مقفل کرکے ان پر مہریں لگا دی تھیں۔۔۔ اورنگزیب کا ایک خاص خواجہ سرا معتمد نامی ان کی نگرانی پر متعین تھا ۔ چونکہ شاہجہان اب حرم کی چار دیواری میں اقامت پذیر ہوگیا تھا اس لیئے ان کمروں تک اس کی رسائی آسانی کے ساتھ ہوسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگزیب نے یہ احکام جاری کررکھے تھے کہ خزانوں کا منہ کھولتے وقت جواہرات کی حفاظت اور احتیاط میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔
شہزادہ محمد سلطان کے چلے جانے پر معتمد خواجہ سرا قلعہ کا واحد مختار بن گیا تھا۔ وہ شاہجہان سے اسی قسم کی سخت گیری روا رکھتا تھا جو سینٹ ہلینا میں نپیولین کے ساتھ ہڈسن لونے روا رکھی تھی۔
شاہجہان: جہاں آرا ، بیٹا ۔ ذرا اِدھر آؤ۔
جہاں آرا: آئی ظلِ الٰہی ۔
شاہجہان: بیٹا ہم نے معتمد خواجہ سرا کو کہلا بھیجا تھا کہ وہ ہمارے لیئے پاپوش منگوا دے۔ خادم ابھی ابھی یہ لایا ہے کہ کھول کر دیکھو کیسی پاپوش ہے۔
جہاں آرا : (کھول کر دیکھتی ہے) ظلِ الٰہی یہ پاپوش آپ نے کس کے لیئے منگوائی ہے ۔ اپنے لیئے یا کسی خادم کے لیئے۔
شاہجہان : کیوں، کیا ہوا ؟ ارے، سچ مچ۔ نابکار نے یہ کیسی فضول سی پاپوش بھیج دی۔
جہاں آرا: فضول ؟۔۔۔ ظلِ الٰہی ۔ یہ تو بالکل نکمی پاپوش ہے۔ چمڑا دیکھیئے کتنا واہیات ہے۔۔۔ ایسی پاپوش تو دلی کے بھڑبونجے بھی نہیں پہنتے ہونگے۔
شاہجہان: ہمیں نہ دکھاؤ جہاں آرا۔ اسی طرح لپیٹ کر رکھ دو یہ سب اس حرام خور معتمد کی شرارت ہے جو محمد سلطان کے چلے جانے پر اس قلعے کا مالک بن بیٹھا ہے۔ ہم سمجھ گئے وہ نابکار ایسی ذلیل حرکتوں سے ہمیں چھیڑ کر خوش ہونا چاہتا ہے۔
جہاں آرا: اللہ کرئے نہ رہے اس دنیا کے تختے پر۔
شاہجہان: بیٹا کسی کو بددُعا نہ دو۔۔۔ معتمد کم ظرف ہے ، اگر اس کا ظرف ، بلند ہوتا تو ہمارے ساتھ اس قسم کی چھیڑ چھاڑ ہرگز نہ کرتا ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھا !
جہاں آرا: (آنکھو ں میں آنسو آجاتے ہیں۔ اور آواز بھرا جاتی ہے) ظلِ الٰہی دل سے صرف ایک ہو ک اُٹھتی ہے اور اس ہوک کے ساتھ جانے کتنی خاموش اور متکلم بددُعائیں لپٹ کر باہر نکل جاتی ہیں ۔ میں سب کچھ جانتی ہوں۔ سب کچھ سمجھتی ہوں پر کیا کروں۔ ۔۔۔ کاش میں آپ کے لیئے کچھ کرسکتی۔
شاہجہان: جہاں آرا! تم نے ہمارے لیئے وہ سب کچھ کیا ہے جو شاید ہی کوئی بیٹی اپنے باپ کے لیئے کرسکے۔ تم نے اپنا آرام ، اپنا چین سب کچھ ہم پر قربان کردیا۔ تم نے اپنے ضعیف باپ کی خدمت اس محبت کے ساتھ کی ہے ہم اپنا دُکھ درد بالکل بھو ل گئے ہیں۔
جہاں آرا: ظلِ الٰہی ۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکی ۔۔۔ عورت ذات کر ہی کیا سکتی ہے۔
شاہجہان: ہمیں ظلِ الٰہی نہ کہو بیٹا۔ ہم خدا کا سایہ نہیں رہے۔ہمیں تو اب اس سائے کی تلاش ہے ۔۔۔ اور جہاں آرا بیٹا ، تم اس تندہی سے ہماری خدمت بجا لائی ہو کہ اب آلام، آلام نہیں معلوم ہوتے۔۔۔ قید و بند کے ان ایام میں ہمیں پہلی مرتبہ اس امر کا احساس ہوا ہے کہ تم کتنی نیک سیرت ، خدمت گزار اور حوصلہ مند خاتون ہو ۔۔۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم تمہارے باپ ہیں ۔۔۔ روؤ نہیں بیٹا تمہار ی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ہمیں روحانی اذّیت ہوتی ہے ۔۔۔ اب آنسو پونچھ ڈالو اور سید محمد فتوحی کو ہمارے پاس بھجوا دو کہ وہ ہندوستان کے ناکامران بادشاہ کے دل کو ڈھارس دینے کے لیئے اخلاقی احکامات اور مذہبی روایات سُنائے ۔۔۔ قسّم ہے وحدہُ لاشریک کی، اس فرشتہ سیرت بزرگ نے ہمارے مذہبی شغف کو بہت بڑھا دیا ہے ۔ قرآن کریم کی تلاوت اور حدیثوں کے درس ہمیں روحانی تسلی بخشتے ہیں۔
تاریخی مطالعہ اور مذہبی شغف کے علاوہ شاہجہان اپنی چھوٹی لڑکی سے جو حضرت میاں میر جیسے ولی کی مرید تھی بہت محبت کرتا تھا۔ جہاں آرا اپنے ضعیف باپ کی خدمت بڑی تندہی سے کرتی تھی ۔ شاہجہان کی اس عمر میں جہاں آرا کا وجود اس کے لیئے یقیناً عصائے پیری تھا۔ بلکہ وہ دوسری اولاد کے تلخ تجربوں کا ازالہ بھی کر رہی تھی۔
شاہجہان اپنی مصیبتوں کے سامنے سرتسلیمِ خم کرچکا تھا اورنگزیب نے پہلے دارالشکوہ، پھر مراد بخش اور پھر سلیمان کو قتل کیا تھا۔ ان حادثات کے باعث بوڑھے باپ کا دل بالکل ٹوٹ چکا تھا۔ اب وہ ایک شکستہ حال انسان کی طرح صبرو شکر کرکے اپنی آخری ایام طوہاًوکرہاً پورے کر رہا تھا۔
قید و بند کے اس زمانے میں شاہجہان اورنگزیب کے درمیان تلخ خط و کتابت کا سلسلہ کچھ دیر جاری رہا ۔۔۔
شاہجہان: بو لو آگے کیا لکھا ہے۔
جہاں آرا: لکھتے ہیں ۔۔۔ ’’ آپ مجھے غاصب اور جابر کہتے ہیں، میرے روّیہ کو تعلب سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسروں کی ملکیت پر قبضہ کرنے والے کو اسلام کا مخالف بتاتے ہیں ۔ لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ سلطنت کے خزانے اور ملکی دولت عامتہ الناس کے فائدے کے لیئے ہے۔ عیش و عشرت کے لیئے نہیں ہے۔ بادشاہت موروثی املاک نہیں ہوتی کہ آپ کے بعد بیٹا ہی اس کا وارث ہو۔ یہ تو خدا کی ایک امانت ہے، جو امین ہوتا ہے اسے ہی ملتی ہے ۔۔۔ یہ مال و دولت ۔۔۔
شاہجہان: بند کردو ۔۔۔ بند کردو اسے ۔۔۔
جہاں آرا: ابھی خط ختم نہیں ہوا ۔
شاہجہان : ہم جانتے ہیں اس کی یہ تقریر کبھی ختم نہیں ہوگی ۔۔۔ لیکن اس کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جو سلوک اس نے ہمارے ساتھ کیا ہے وہی سلوک اس کی اپنی اولاد اس کے ساتھ روا رکھے گی ۔۔۔ یہ ہم اسے خط میں بھی لکھوا چکے ہیں۔
جہاں آرا: اوراس کا جواب اس خط میں موجود ہے۔
شاہجہان: کیا لکھتا ہے !
جہاں آرا: لکھتے ہیں ’’جو کچھ ہوتا ہے، خدا کے حکم سے ہوتا ہے۔ میں جو کچھ کررہا ہوں وہی میرے اگلوں نے بھی کیا تھا ۔ پھر تعجب کی بات کیا ہے۔ اگرخدا کی مرضی اسی میں ہے تو میرے بیٹے مجھ سے بھی ایسا ہی سلوک کریں گے۔ میں خدا کی مرضی اور اس کے حکم سے سرِموتفاوت نہیں کروں گا ۔ لیکن میری نیت چونکہ اچھی ہے اور خدا کی مہربانی ہمیشہ نیک نیتوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس لیئے مجھے توقع رکھنی چاہیئے کہ میری اولاد میرے ساتھ اچھا سلوک کرئے گی۔۔۔‘‘
شاہجہان: خدا کی مرضی ۔۔۔ خدا کی مرضی ۔۔۔ خدا کی مرضی ضرور ایسی ہی ہوگی۔ وہ دن ضرور آئے گا جب محی الدین اپنے بیٹے کو باغی اور بے وفا کہے گا ۔ تو وہ پلٹ کر یہ جواب دے گا ’’بولو ، تم نے اپنے باپ کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ ۔۔۔ کیا تم باغی نہیں ہوگئے تھے ، کیا تم نے اپنے باپ سے دغا نہیں کیا تھا؟
جہاں آرا : خط کا تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے وہ بھی سن لیجیئے۔
شاہجہان: سُناؤ!
جہاں آرا: لکھتے ہیں ’’آپ مجھے کیوں بُرا کہتے ہیں۔ کیا آپ اپنے بھائیوں خسرو اور پرویز کو بھول گئے۔ انہوں نے آپ کو کوئی گزندنہیں پہنچایا تھا۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے ان کے ساتھ بُرا سلوک کیا۔۔۔‘‘
شاہجہان اورنگزیب کے درمیان یہ تلخ خط و کتابت ایک عرصے تک جاری رہی۔ اس کے بعد اورنگزیب نے باپ کو خود لکھنا ترک کردیا ۔ کبھی کبھی منشیوں سے کچھ لکھوا کر بھیج دیا کرتا تھا۔ لیکن بعد میں یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔
شاہجہان اورنگزیب سے نہ تو تلوار کی جنگ میں عہدہ برآ ہ ہوسکا نہ قلمی جنگ میں کچھ عرصے کے بعد وہ قدرت کے فیصلے کے آگے جُھک گیا۔ اب وہ قسمت کا گلہ نہیں کرتاتھا۔
تاج محل کا مفکر جس نے موت کو حسین بنا دیا تھا اور جس نے اپنی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو کو زمانے کے گال پر اپنی تمام تابانیوں سمیت ابدیت میں منجمد کردیا تھا۔ اب اپنی حسرت ناک موت کا منتظر تھا۔
مصائب و آلام کی اس زندگی سے نجات حاصل کرنے کی خواہش شاہجہان کے دل میں ہر وقت تڑپتی رہتی تھی ۔ بالآخر جنوری 1666ء میں پوری ہوگئی سات جنوری کا دن تھا شاہجہان نے ایک خاص تیل کی مالش اپنے جس پر کرائی تھی۔ اس سے فائدے کی بجائے نقصان ہوا۔
شاہجہان : (نقاہت بھری آواز میں) ۔۔۔ اس تیل کی مالش نے ہمیں مطلق فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ اس سے نقصان ہی ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بدن میں جان ہی نہیں رہی۔
سید محمد قنوجی: خدا کا فضل شامل حال رہا تو آپ عنقریب صحت مند ہوجائیں گے ۔
شاہجہان: سید صاحب، اب صحت اور تندرستی کی آرزو نہیں ہے۔ اب تو جی چاہتا ہے کہ جلد ازجلد اس زندگی کا خاتمہ ہو۔
سید محمدقنوجی: زندگی خداوند تعالیٰ نے زندہ رہنے کیلئے عطا فرمائی ہے عالی جاہ ! اس کا ہر لمحہ صبر اور شکر سے گزارنا چاہیئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اوردکھ سکھ تو ہر شخص کی زندگی میں ہوتے ہیں ۔۔۔ عالی جاہ!
شاہجہان: آپ درست فرماتے ہیں سید صاحب ۔۔۔ مگر واقعہ یہی ہے کہ ہم اب اس دنیا کے افکار سے آزاد ہوجانے کے متمنی ہیں ۔۔۔ موت تو مقررہ وقت پر ہی آئے گی۔ لیکن اس کو قریب تر دیکھنے کی آرزو جو دل میں پیدا ہوگئی ہے مٹائے نہیں مٹ سکتی۔
سید محمد قنوجی: عالی جاہ! افکار و آلام سے آزادی حاصل کرنے کا حل موت نہیں پیش کرتی۔ موت کے بعد بھی ان کا ہجوم انسان کو ستا سکتا ہے ۔ دُعا کیجیئے کہ آپ کی دوسری زندگی ہر قسم کے تردّد سے پاک ہو۔
شاہجہان: سید صاحب، ہم ہر وقت بارگاہ ایزدی میں یہی دُعا مانگتے رہتے ہیں ۔۔۔ اس زندگی سے ہم مطمئن ہیں ۔ زندگی کے چوہتر برس پورے ہوچکے ہیں ۔ اس دوران ہم نے فتح و ظفر دیکھی ہے ناکامی اور نامرادی سے بھی سابقہ پڑا ہے، تخت پر بیٹھنے سے پہلے کئی جنگلوں کی خاک چھانی ہے، لمبے لمبے سفر کیئے ہیں۔ مشقتیں برداشت کیں ہیں۔ خوشیاں دیکھی ہیں اور اب آخری عمر میں بیوفائی کے چرکے بھی سہے ہیں۔ غرض زندگی میں جو ہوتا ہے ہم سب دیکھ چکے ہیں ۔۔۔ بخدا اب ہم راضی برضاہیں ۔۔۔
(ایک خادم اندر داخل ہوتا ہے)
خادم: ظلِ الٰہی ! وید بندرابن صاحب تشریف لائے ہیں۔
شاہجہان: انہیں حاضر کرو۔۔۔
خادم : بہت اچھا ظلِ الٰہی ۔
(چلاجاتا ہے)
شاہجہان : ہم نے اس وید کی بہت تعریف سُنی ہے ہم سے کہا گیا ہے کہ امراضِ شکم کے علاج میں مہارت رکھتا ہے۔۔۔ سید صاحب معدے کی خرابی نے ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے۔
عارضہ کے نویں دن وید بندرابن نے شاہجہان کے مرضِ شکم کو بالکل دُور کردیا جس سے اس کو قدرے سکون ملا مگر ضعف اور نقاہت ویسی کی ویسی قائم رہی ۔
سردی شدت کی تھی شربت پیتے پیتے شاہجہان کے ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئی تھیں۔ ضعیف و ناتوانی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ مرضِ شکم دُور ہوگیا تھا۔ لیکن دوسرے عارضے دن بدن بڑھ رہے تھے۔ اب ایسا وقت آگیا تھا کہ دوائیں اور غذائیں بالکل بے اثر تھیں۔ دو شنبہ 22 جنوری 1661ء کی رات کے ابتدائی حصے میں زندگی کی آس باقی نہ رہی ۔۔۔ دم بہ لب شاہجہان کے پلنگ کے ارد گرد حرم کی عورتیں کھڑی رو رہی تھیں۔ شاہجہان نے اپنے ہوش و حواس مجتمع کرکے اپنی بیویوں کو جو اس وقت زندہ تھیں اپنے پاس بلالیا تھا۔ اکبر آبادی محل اور فتح پوری محل بھی ان میں شامل تھیں۔
شاہجہان: (عورتوں کو تسلی دیتے ہوئے) روؤ نہیں ۔۔۔ تمہارے یہ اشک خدا کے اٹل فیصلے کو نہیں روک سکتے ۔ صبر کرو۔ خدا کا شکربجالاؤ کہ وہ ہمیں اس دُکھ بھری دنیا سے نجات دلا رہا ہے ۔
(سب عورتیں روتی ہیں)
شاہجہان: جہاں آرا۔۔۔ جہاں آرا ۔۔۔
جہاں آرا: ارشاد اباجی ۔
شاہجہان: بیٹا، تم نے ہماری بہت خدمت کی ہے ۔ خدا تم کو اجر دے ۔ دیکھو ہم وصیت کرتے ہیں کہ اپنی سوتیلی بہن پر ہنر بانو کو بھول مت جانا۔ ہمیں یقین ہے کہ تم اسے نہیں بھولو گی، لیکن اطمینان کے لیئے ہم تمہیں تاکیداً کہہ رہے ہیں اور دیکھو محل کی دوسری خواتین جو ہماری موت کے بعد لاوارث ہوجائیں گی۔ بیٹا ان کی پرورش کا ضرور خیال رہے ۔۔۔ مراد کے یتیم بچوں کا جس طرح تم نے خیال رکھا ہے اسی طرح ان لاوارثوں کا بھی خیال رہے ۔۔۔ سُن رہی ہو بیٹا ۔
جہاں آرا: (ہچکیاں لے کر ) سُن رہی ہوں ابا جی۔
شاہجہان: آؤ ۔۔۔ ہمارے پا س بیٹھو ۔۔۔ ہم تمہارے سر پر آخری بار اپنا ہاتھ پھیرنا چاہتے ہیں ۔
(جہاں آرا ، پلنگ پر بیٹھ جاتی ہے ، شاہجہان اس کے سرپر آخری بار اپنا ہاتھ محبت سے پھیرتا ہے )
شاہجہان: (اکبر آبادی محل اور فتح پوری محل سے مخاطب ہوکر) اس بچی نے ہماری بہت خدمت کی ہے۔۔۔ ( اکبر آبادی محل اورفتح پوری محل اور زیادہ روناشروع کردیتی ہیں)
شاہجہان: حوصلہ رکھو۔۔۔ زندگی اور موت نئی چیزیں نہیں جو زندہ ہے ایک دن ضرور مرے گا ۔۔۔ حوصلہ رکھو ۔۔۔ جہاں آرا ۔۔۔جاؤ بیٹا : یہ سامنے والی کھڑکی کے پٹ کھول دو۔۔۔ ہم آخری بار ارجمند بانو کی آرام گاہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔
(جہاں آرا کھڑکی کھول دیتی ہے)
شاہجہان: (کھڑکی میں سے تاج محل کو دیکھتا ہے ) کاش کہ ہم اپنی زندگی کے تمام حسین خیالات اسی طرح ابدیت میں ڈھال سکتے ۔۔۔ کتنا خوبصورت روضہ ہے ارجمند بانو ضرور مطمئن ہوگی ۔۔۔ آہ ۔۔۔ اس کا نام لیتے ہی سمن برج پھر سے آباد ہوگیا ہے۔ جمنا کی لہریں پھر سے متکلم ہوگئی ہیں ۔۔۔ شاہجہان پھر انہی دلفریب لمحات میں سانس لینے لگا ۔۔۔ (سانس اکھڑ جاتی ہے) ۔۔۔ اشہدان لا الہ الا اللہ واشہدن محمد رسول اللہ ۔۔۔ اے میرے خدا دنیا اور آخرت دونوں میں مجھ پر رحم کر اور نارِ جہنم سے بچا ۔۔۔
دُعا ختم ہونے کے بعد شہاب الدین شاہجہان تاج محل کا مفکر ہمیشہ کے لیئے سو گیا ۔۔۔ رات کے ساڑھے دس بجے تھے۔ وہ سمن برج میں ایک لمبے چوڑے پلنگ پر خوابِ گراں میں محو تھا ۔ کھڑکی میں تاج محل نظر آرہا تھا اس چاندنی کی پھوار میں وہ بالکل ایک خواب معلوم ہوتا تھا جو سمن برج میں سونے والا دیکھتا ہو۔
شاہجہاں کی وصیت تھی کہ اسے تاج محل میں اپنی آرامِ جاں کے پاس دفن کیا جائے ۔چنانچہ جنازہ ممتاز محل کے گنبد میں لے جایا گیا اور اس کے جسدِ خاکی کو ارجمند بانو (ممتاز محل ) کے پہلو میں محوِ استراحت کردیا گیا۔
مصنف:سعادت حسن منٹو