نہیں ہے فکر تجھے فکر ماسوا کے سوا
ہزار بت ہیں ترے دل میں اک خدا کے سوا
نہیں جو ضبط کی توفیق دے خدا کے سوا
کہ لاکھ غم بھی ہیں عمر گریز پا کے سوا
تمام مصلحتیں وقف ہیں خرد کے لئے
نہیں ہے شیوۂ اہل جنوں وفا کے سوا
علاج دل کے لئے اور اب کہاں جائیں
تمہارے شہر میں سب کچھ ملا دوا کے سوا
وہ مدتوں میں ملے بھی تو اف رے محرومی
سبھی کچھ ان سے کہا حرف مدعا کے سوا
مرا شعار ہے اے دوست غم فراموشی
مجھے تو یاد نہیں کچھ تری عطا کے سوا
تھے میری راہ میں لاکھوں بتان نخوت و ناز
کہیں بھی سر نہ جھکا تیرے نقش پا کے سوا
بہت سے غم تو دیے ضبطؔ ایسے لوگوں نے
کہ جن سے کوئی توقع نہ تھی وفا کے سوا
مأخذ : گل زر بکف
شاعر:زبت انصاری